قرض منسوخی کی التجا 

قسمت کے لکھے کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا البتہ مصائب میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سی مشکلات کی شدت کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور یہی وہ خاص نکتہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کی منجملہ قیادت کو غور کرنا چاہئے کہ سیلاب جیسی آزمائش سے عہدہ برآء ہونے میں کامیابی اِسی میں ہے کہ دستیاب وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے اور دوسروں کے رحم و کرم پر کم سے امیدیں وابستہ نہ کی جائیں‘ جیسا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کے قرضوں کو منسوخ کرنے کی درخواستیں کی جا رہی ہیں اور اِن درخواستوں کا مثبت جواب سامنے نہیں آ رہا‘ قومی قیادت کو سب سے پہلے یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ اگر فہم و فراست سے کام لیا جاتا تو پاکستان کو قرض لینے کی نوبت ہی نہ آتی بلکہ قرض کی بجائے قومی وسائل کو ترقی دی جاتی اور جہاں قرض لینا ضروری بھی ہوتا تو اُس کا استعمال صرف اور صرف پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے استعمال ہونا چاہئے تھا۔ کیا عجیب بات ہے کہ قرض لے کر سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کیا جاتا رہا لیکن اِن اداروں کو خسارہ کرنے سے روکنے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی!ایک فرضی منظر نامے پر غور کرنے سے تمثیل سمجھ آ سکتی ہے کہ قرض لینا بُری بات نہیں لیکن قرض کے ساتھ جڑی شرائط اور اُس قرض کا استعمال دانشمندی سے ہونا چاہئے۔ کوئی بھی ملک یا ادارہ قرض دینے سے قبل اپنے قرض کی واپسی کی ضمانت چاہتا ہے۔ اُس کے سامنے قدرتی آفات سمیت وہ سبھی محرکات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے قرض کی واپسی میں تاخیر ہو سکتی ہے اور وہ اِس تاخیر کو مدنظر رکھتا ہے لیکن قرض معافی شروع دن سے اُس کی سوچ نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں اگر قرض دہندگان ممالک سے اِس بات کا مطالبہ کیا جائے کہ وہ قرض معاف کر دیں گے تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے کیونکہ ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ قرض دہندگان کے کچھ ایسے مطالبات اور تقاضے پورے نہ کئے جائیں جو قرض لینے والے کی خودمختاری اور قومی فیصلہ سازی بشمول خارجہ پالیسی پر حاوی ہو جائیں۔پاکستان میں صرف سیلاب ہی آفت نہیں بلکہ امن و امان کی صورتحال اور داخلی سلامتی کو لاحق خطرات جیسے سیلاب بھی کسی آفت ہی کی اشکال ہیں۔ یادش بخیر کراچی پر کبھی جرائم مافیا کا راج ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے حکومت کو متوجہ کیا تھا لیکن کیا اِس حقیقت سے انکار کیا گیا کہ پاکستان کے کئی شہر ایسے ہیں جہاں منظم جرائم کی شرح ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے! چوتھی صدی میں سینٹ آگسٹین نے پوچھا تھا کہ ”چھوٹی سلطنتوں کے علاوہ ڈاکو گروہ کیا ہوتے ہیں؟ ایسے ڈاکو گروہوں کی کاروائیاں بڑھتی ہیں یہ منظم انداز میں اپنے ٹھکانے قائم کرتے ہیں اور شہروں پر قبضہ کر کے پوری آبادی کو مسخر کر لیتے ہیں اور انہیں بادشاہت قرار دینا چاہئے“ یہ تصور کہ ”ریاست اور جرائم پیشہ گروہ ایک ہی چیز کے بڑے اور چھوٹے تصورات ہیں“ قرون وسطیٰ کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا یہ بات ممکن ہے کہ دنیا کے کچھ حصے صرف اِس وجہ سے ترقی نہ کر پائے ہوں کیونکہ اُن کے ہاں جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت قائم ہے؟ایک بار جب یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ قرض منسوخی کا مطالبہ اِس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ ایسا کرنے سے حکمرانوں کی نیک نیتی مشکوک ہو سکتی ہے تو ہم بہت سارے پہلو بشمول منطق کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نکتہئ نظر اور قرض معافی کی ضرورت کو تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی قرض منسوخی کیوں ہونی چاہئے؟ سوچنا ہوگا کہ قرض معافی کے راستے پر آگے بڑھنے میں کوئی اخلاقی خطرہ تو نہیں ہے؟ سیلاب کی زد میں آنے والوں کے نام پر برسوں سے قرض لیا جا رہا ہے آخر یہ سوال کیوں نہیں اُٹھایا جاتا کہ ماضی میں لیا گیا قرض کہاں گیا اور وہ کتنی ذمہ داری اور ہوشیاری سے استعمال کیا گیا ہے؟ اگر پاکستان کے فیصلہ ساز قرض معافی سے زیادہ قرض وصولی اور قرض سے حاصل شدہ مالی وسائل کے درست استعمال پر توجہ دیں تو بہت سارے مسائل کا حل ممکن ہے جن میں غلط طرز حکمرانی بھی شامل ہے۔ ہمارے حکمران سرمایہ داروں کے قرض تو معاف کرتے ہیں لیکن عام آدمی اگر سیلاب متاثرین میں شامل ہو کہ جس کا گھر بار پانی میں بہہ چکا ہو اور اُس کے پاس سر چھپانے کے لئے جگہ بھی نہ ہو تو ایسے بے آسرا اور بے یارومددگار شخص کو نوید دی جاتی ہے کہ اُس کے بجلی کا بل معاف کر دیا گیا ہے حالانکہ جس گھر پر بجلی کا کنکشن لگا تھا اُس گھر کا اب نام و نشان تک نہیں اور اگر نام و نشان باقی بھی ہے تو وہ گھر قابل استعمال نہیں ہے!پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ایک ایسی حقیقت ہیں جو بار بار ظاہر ہوں گی اور جن کے اثرات وقتی نہیں بلکہ دائمی ہیں۔ ضرورت ایسے اقدامات کی ہے جو صرف حال ہی نہیں بلکہ ریاست کو مستقبل میں درپیش خطرات کا سامنا کرنے کے قابل بنائیں۔بصورت دیگر قرض معافی سے کچھ نہیں ہوگا اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی محدود نہیں ہوں گی کیونکہ پاکستان گلوبل ساؤتھ کا حصہ ہے اور اِسے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات ہیں وہیں گلوبل ساؤتھ کے جملہ ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تلافی بھی ہونی چاہئے‘ کیا پاکستان بنگلہ دیش‘ بھارت کشمیر‘ جاپان چین اور چین سنکیانگ کا مقروض نہیں؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے ایک دوسرے کے مقروض رہتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ کینیڈا میں ایک سو سال چلنے والے مقدمے کے بعد آخر کار بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کرنے اور ان کی مادری زبانوں اور ثقافت کے استعمال پر پابندی لگانے والوں کو جرمانہ کیا گیا ہے۔ کیا سیلاب اور زلزلے متاثرین کو حکمرانوں سے اِس بات کے لئے تاوان طلب کرنا چاہئے کہ اُنہیں کمزور مکانوں میں رہنے دیا گیا؟ کیا حکمرانوں کو اِس بات کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے عوام کو مناسب رہائش اور خوراک اور پینے کا صاف پانی فراہم نہیں کیا؟ تعلیم کا آئینی حق ادا نہ کرنے والوں سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے اور اُن سے بھی تاوان طلب کرنا چاہئے؟ انگریزی کے ادیب شیکسپیئر سے بات شروع کرنے کے بعد اگر اِس کا اختتام اردو ادب کی قدآور شخصیت غالبؔ پر ختم کیا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا جنہوں نے کہا تھا کہ ”قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں …… رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن“(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: انجم الطاف۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)