سفارتکاری کا امتحاں 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں شرکت کیلئے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے ہم منصبوں سے درجنوں دو طرفہ اور کثیرالجہتی ملاقاتیں کیں۔ یہ بات تسلی بخش ہے کہ خطرناک راستے پر چلنے کی بجائے پاکستان نے امریکہ‘ چین‘ روس اور مسلم دنیا سمیت تمام ممالک کے رہنماؤں کیساتھ خوشگوار سفارتی تعلقات کی اہمیت کو سمجھا ہے‘کامیاب سفارتکاری کے ثمرات مستقبل میں نظر آئینگے لیکن موجودہ حالات میں جو بات اعتماد کیساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ دونوں نے درست حکمت عملی اپنائی ہے جو پاکستان کے قومی مفاد میں ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک بنا کامیاب سفارتکاری آگے نہیں بڑھ سکتادوسرا متعلقہ اور یقین دلانے والا عنصر یہ ہے کہ پاکستان کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں کی گئی بات چیت سے واضح ہوا کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کو کسی بھی منفی تاثر کو غالب ہونے نہیں دے رہا‘ عالمی رہنماؤں‘ تھنک ٹینکس اور میڈیا کیساتھ ہمارے قومی رہنماؤں کی بات چیت میں ایک مشترک بات یہ تھی کہ انہوں نے ایسی کوئی بھی بات کہنے سے انکار کر دیا جس سے وہ بین الاقوامی سطح پر کسی ایک طاقت کے قریب یا کسی دوسری طاقت سے الگ ہو جائیں اور دنیا پاکستان کو اپنے مدمقابل سمجھنے لگے اگر ایسا کیا جاتا تو یہ پاکستان کے قومی مفادات کو ممکنہ طور پر خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا پاکستان کے خارجہ تعلقات کی سمت بانی پاکستان نے متعین کی تھی۔ قائد اعظمؒ نے اس مضبوط دعوے سے رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر کسی کیساتھ ’خوشگوار تعلقات‘ کا خواہاں ہے یہ یقین ان کے اس پختہ عزم سے پیدا ہوا کہ پاکستان جیسے نئے اور درمیانے درجے کے ملک کو آگے بڑھنا ہے لہٰذا پاکستان نے ہمیشہ تمام اہم عالمی طاقتوں یعنی امریکہ‘ چین‘ سابق سوویت یونین (اب روس) اور مسلم دنیا کیساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے یہ پالیسی پاکستان کے بہت کام آئی اور یہی وجہ تھی کہ ایک مرحلے پر 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکہ اور چین کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا جس کے ثمرات پاکستان اب بھی بین الاقوامی سطح پر ایک مفاہمت کار کی ساکھ کی صورت میں اٹھا رہا ہے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا حال ہی میں میڈیا سے بات چیت میں تبصرہ اس بات کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ”ہم کوئی جیوپولیٹیکل فٹ بال نہیں ہیں“ کہ کوئی بڑی طاقت ہمیں دوسرے کیخلاف استعمال کرے“ خارجہ پالیسی کا یہ اصول پاکستان کی ضرورت ہے افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لڑی جانیوالی مختلف جنگوں میں ملوث ہونیکی وجہ سے پاکستان پہلے ہی بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے پاکستان کی خارجہ اور تزویراتی پالیسی ساز اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سامنے آنیوالے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی تنازعات سے دور رہنا ہی پاکستان کے حق میں بہتر ہے ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ اسلام آباد میں پالیسی ساز اس بات پر قائل ہیں کہ پاکستان کو واحد راستہ اختیار کرنا چاہئے اپنی قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کیلئے اور اس کی پیروی کرتے ہوئے معاشی ترقی کا انتخاب کرنا چاہئے اور اس کیلئے پاکستان بین الاقوامی طاقت کی سیاست میں غیر ضروری فریق بننے کا متحمل نہیں ہو سکتاپاکستان جیسے ملک کیلئے بہت سے مسائل کیساتھ جس کا اِسے سامنا ہے اِن میں اقتصادی کمی‘ موسمیاتی تباہی‘ توانائی کی کمی‘ انسانی ترقی کے خراب اشارے‘ گورننس کے مسائل اور اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا شامل ہیں‘ اسے امریکہ سمیت تمام ممالک کی حمایت کی ضرورت ہے چین‘ روس اور مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ممالک پاکستان کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں چین اِس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی چھتری تلے مواصلات‘ توانائی اور صنعتی ترقی کے شعبوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت متعدد شعبوں میں چینی تعاون کی ضرورت ہے لیکن پاکستان امریکہ کیساتھ خراب تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ جو ہماری برآمدات کی بڑی منڈی ہے اور امریکہ نے پاکستان کو پسندیدہ ملک کا مقام دیا ہوا ہے‘ خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں‘ پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً ساٹھ فیصد امریکہ میں فروخت ہوتا ہے تجارت کیساتھ پاکستان کی دفاعی صنعت میں بھی امریکہ اہم کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان کو جدید ہتھیاروں کی فراہمی کرنیوالے اہم ممالک میں امریکہ شامل ہے دوسری طرف اسلام آباد کو ماسکو کیساتھ بھی اچھے دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جو تیل و توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے اور ساتھ ہی خوردنی تیل اور گندم کی خریداری کیلئے بھی قابل اعتماد و پسندیدہ ذریعہ ہے‘ پاکستان جغرافیائی طور پر جس خطے میں واقع ہے اِس کے پیچیدہ جیو اسٹریٹجک محل وقوع میں سفارتکاری کی بڑی اہمیت ہے اور بہتر سفارتکاری کا یہ ہدف پاکستان کو امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ مل کر حاصل کرنا ہے‘ پاکستان کو متعدد وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کیساتھ بھی دوستانہ تعلقات کی ضرورت ہے کیونکہ اِن عرب و خلیجی ممالک میں کام کرنیوالے لاکھوں پاکستانی مزدور ترسیلات زر کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ مختلف حساس معاملات پر یہ ممالک پاکستان کو سفارتی تعاون بھی فراہم کرتے ہیں اور یہ تیل و گیس کے شعبے میں پاکستان کے اہم فراہم کنندہ بھی ہیں‘پاکستان کے رہنماؤں کی عالمی سطح سفارتی کوششیں اور عالمی برادری کی طرف سے خیرمقدم ایک اچھے مستقبل کی نوید ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ‘ امریکی صدر جو بائیڈن‘ امریکی وزیر خارجہ بلنکن‘ روسی صدر پیوٹن اور فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ پاکستان کے رہنماؤں کی حالیہ ملاقاتوں کے علاؤہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا بالآخر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کو سننے اور اِس کی مدد کرنیکی ضرورت ہے‘ نوجوان آبادی کوبڑے پیمانے پر تعلیم کے ذریعے اِس قابل نہیں بنانا ضروری ہے کہ یہ پاکستان کے کام آئے‘بیرونی دنیا کیساتھ نتیجہ خیز تعلقات کیلئے معیشت کے تمام شعبوں میں عالمی معیار کے ہنرمندوں کی ضرورت ہے  ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شاہد الیاس۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)