وزیر خزانہ اسحاق ڈار تین اقتصادی ترجیحات (پاکستانی روپے کی قدر کو مضبوطی و استحکام‘ شرح سود اور مہنگائی کی شرح میں کمی) پر کام کر رہے ہیں لیکن پاکستان کی مالیاتی امور‘ مشکلات اور پریشانیاں اُس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک قرضوں کے بوجھ اور قرضوں پر انحصار کرنے والے ترقیاتی فیصلوں پر نظرثانی نہیں کی جاتی! فی الوقت حکومت کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے کافی مدد مل رہی ہے جس کی وجہ سے جاری اخراجات (کرنٹ اکاؤنٹ) کے خسارے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اِس کی وجہ سے روپے کا شرح مبادلہ نسبتاً مستحکم نظر آ رہی ہے۔ برینٹ کروڈ آئل کی قیمت سال دوہزارگیارہ سے چودہ کے درمیان 100 ڈالر فی بیرل یا اِس کے آس رہی۔ سال دوہزارپندرہ سے دوہزارسترہ کے درمیانی عرصے میں اِس قیمت میں چالیس سے پچاس ڈالر کمی آئی اور پھر اضافہ ہوا۔ اِس بات کو اسحاق ڈار کی خوش قسمتی قرار دیا جا رہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر خام تیل کی قیمت کم ہوئی ہے۔ مارچ دوہزار بائیس میں خام تیل فی بیرل کی قیمت ایک سو بیس ڈالر تھی جو کم ہو کر 90 ڈالر فی بیرل ہو چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت خام تیل کی قیمتوں میں اِس کمی سے کتنا فائدہ اُٹھاتی ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے اور معیشت کو درست راستے پر ڈالنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ کسی قوم کے درست اقتصادی فیصلے ہی اُس کے مستقبل کو محفوظ بناتے ہیں۔ پاکستان کو اِس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ کم سے کم بات اور زیادہ سے زیادہ عمل کی ہے۔پاکستان کے درآمدی اخراجات زیادہ ہیں۔ درآمدی اشیا کی کھپت میں بے لگام اضافہ ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ رہتا ہے۔ روپے کی قدر میں زبردست کمی کے باوجود پاکستان غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی کم سطح اور برآمدات میں نسبتاً معمولی نمو کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ ملک کی معاشی صحت کا زیادہ تر انحصار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے موصول ہونے والی ترسیلات پر ہے جو برآمدی صنعتوں کی فروخت کے مساوی زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستان کو اکتیس اعشاریہ سات ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں جبکہ برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی اکتیس اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر مالیت کی تھیں قومی خزانے سے متعلق امور کے سربراہ کو ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا چاہئے جو پاکستان کی توانائی کی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری لائی جا سکے اور توانائی کی مہنگی درآمدات پر قوم کا انحصار کم ہو سکے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات‘ جس کا طویل عرصے سے انتظار ہے جبکہ تیل صاف کرنے کی پالیسی سے لے کر تیل و گیس کی تلاش کے لئے موافق کاروباری ضوابط کے نفاذ تک اصلاحات کی ضرورت ہے۔ تیل صاف کرنے کی صنعت کو بطور مثال دیکھا جا سکتا ہے۔ ریفائنرز کم قیمت والے خام تیل کی پروسیسنگ کرکے زیادہ قیمت والا پیٹرول اور ڈیزل تیار کرتی ہیں۔ وہ درآمدی متبادل کے ذریعے ملک کو کروڑوں سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچا سکتی ہیں۔ امریکہ اور بھارت سمیت بہت سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں آئل ریفائنریز زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں پر چلائے جاتے ہیں تاکہ ملکی فروخت کے ساتھ برآمدات سے بھی آمدنی حاصل کی جا سکے جبکہ پاکستان اپنی تیل صاف کرنے کی کل صلاحیت کا بمشکل ساٹھ سے ستر فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ تیل کی مقامی طلب پورا کرنے کے لئے تیل کی صفائی کا موجودہ بندوبست کم ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کو آئل ریفائننگ پالیسی متعارف کرانی چاہئے تاکہ ریفائنریز پلانٹ کی توسیع پر کام کیا جا سکے اور ملک کو فاریکس کی بچت ممکن ہو۔ اسی طرح ایندھن کی قیمتوں کی مکمل ڈی ریگولیشن کے ذریعے‘ پالیسی ساز توانائی کی صنعت کو سرمایہ کاروں کے لئے زیادہ منافع بخش بنانے کے ساتھ مسابقتی بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی طریقہ اور حربہ ہے جس کے ذریعے حکومت توانائی کی منڈی میں ابھرنے والی تضادات دور کر سکتی ہے۔ پالیسی سازوں کو طلب اور رسد کے بنیادی اصولوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ مختصراً یہ کہ اصلاحات کے ذریعے درآمدات پر مبنی کھپت کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں‘ وقت ہے کہ حکومت برآمدی صنعتوں پر گہری نظر رکھے جنہوں نے روپے کی قدر میں کمی اور سبسڈی کی صورت میں حکومت سے فائدے تو حاصل کئے ہیں لیکن قومی ترقی میں خاطرخواہ کردار ادا کرتے دکھائی نہیں دے رہیں۔ حکومت کو اپنی اقتصادی ترجیحات از سر نو تشکیل دینا چاہئیں اور ان صنعتوں کو سپورٹ کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جو مستقبل میں برآمدات میں اضافے کے لئے بہترین امکانات پیش کرتی ہیں۔ حکومت کو انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور دیگر صنعتوں پر غور کرنا چاہئے‘ اُن تمام شعبوں کے برخلاف جن کا برآمدی آمدنی بڑھانے کا ٹریک ریکارڈ خراب ہے اور وہ سبسڈی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ واضح طور پر شناخت شدہ مقاصد اور حقیقت پسندانہ اہداف کے ساتھ برآمدی تنوع کو ہدف بنانے والی حکمت عملی لاگو ہونی چاہئے۔ اقتصادی اصلاحات کا عمل جلد از جلد شروع کیا جانا چاہئے۔ حالیہ سیلاب نے معیشت کو پہلے ہی تباہ کن دھچکا پہنچایا ہے اور ملک برسوں تک اس کے آفٹر شاکس محسوس کرتا رہے گا۔ فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد پاکستان کو موسم سرما میں کپاس اور گندم کی درآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ مزید برآں تیل کی قیمتیں آنے والے دنوں میں بڑھ سکتی ہیں کیونکہ اوپیک یومیہ پیداوار میں بیس لاکھ بیرل کی کمی کا ارادہ رکھتا ہے جس سے قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ اگست میں پاکستان کے ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے‘ میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں بیالیس فیصد کمی ہوئی جو کہ ایک خوش آئند پیش رفت تھی۔ تاہم مذکورہ بالا عوامل پر غور کرتے ہوئے‘ درآمدات کی مانگ اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یہ کمی پائیدار نہیں ہوسکتی۔ ایک مختصر بحالی کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک کہ پاکستان اقتصادی اصلاحات نہیں کرتا‘ خاص طور پر توانائی اور برآمدات کے شعبوں میں اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سرفراز خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام