امریکی حفاظتی حکمت ِعملی

وائٹ ہاؤس کی طرف سے ’بارہ اکتوبر‘ کو جاری کی گئی قومی سلامتی حکمت عملی میں‘ بائیڈن انتظامیہ نے زور دے کر کہا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین اُس کا واحد حریف ہے جس کے ساتھ بین الاقوامی نظام کو از سر نو تشکیل دینے کا ارادہ ہے اور تیزی سے اقتصادی‘ سفارتی فوجی اور تکنیکی طاقت کا استعمال یعنی جملہ وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ دوسری طرف چین ’انڈو پیسیفک‘ خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور دنیا کی سرکردہ طاقت بننے کے عزائم رکھتا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ امریکہ کو خطرے کا ادراک افغانستان یا القاعدہ سے نہیں بلکہ چین اور انڈو پیسیفک خطے کی طرف سے ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی حکمت عملی نے امریکہ کی عالمی سلامتی اور تزویراتی مفادات کو درپیش نئے چیلنجز پر کس قدر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پالیسی دستاویز میں لفظ ’طالبان‘ صرف ایک بار‘ القاعدہ تین بار اور افغانستان کا چار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بیجنگ‘ چین‘ پی آر سی کا ذکر کل ساٹھ بار کیا گیا ہے جب کہ انڈو پیسیفک چونتیس بار زیر بحث آیا ہے۔ 

یہ طرز عمل کچھ حد تک قابل فہم ہے جس میں پاکستان یا اسلام آباد کا اِس میں ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے بارے میں بائیڈن کے حالیہ ریمارکس کہ یہ ”دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک“ ہے درحقیقت پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے سنگین یاد دہانی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات تناؤ سے بھرے ہوئے ہیں اور اسی طرح مشرق وسطیٰ کا معاملہ ہے‘ جس پر گیارہ مرتبہ بحث کی گئی ہے لیکن نئی پالیسی کا بنیادی مرکز ہند بحرالکاہل کا خطہ ہے۔ اس تازہ ترین سوچ کے برعکس امریکہ کو چین ایک اہم خطرہ دکھائی دیتا ہے۔ سال 2010ء میں اوباما انتظامیہ کی پہلی قومی سلامتی کی حکمت عملی کی نقاب کشائی کی گئی تھی۔ دستاویز میں تین بار طالبان۔ پچیس بار القاعدہ اور بیس بار افغانستان کا ذکر کیا گیا تھا۔ تب پاکستان کا ذکر پندرہ مرتبہ اور چین صرف دس بار یاد کیا گیا۔ حتیٰ کہ چین کے حوالے سے لہجہ اور انداز بھی حالیہ برسوں کے مقابلے میں کافی مختلف (نرم) تھا۔

 مثال کے طور پر‘ اوباما دور کی پالیسی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ امریکہ ”باہمی مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر اکیسویں صدی کے دوسرے اثر و رسوخ کے مراکز یعنی چین اور روس کے ساتھ اپنے تعاون کو مزید گہرا کرتا رہے گا۔“ اسی دستاویز میں مزید کہا گیا کہ ”امریکہ چین کے ساتھ ایک مثبت‘ تعمیری اور جامع تعلقات کو جاری رکھے گا“ اور یہ کہ واشنگٹن بیجنگ کا خیرمقدم کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور عالمی برادری کے ساتھ شراکت داری میں مرکزی کردار ادا کرے تاکہ عالمی چیلنجوں (اقتصادی جمود‘ موسمیاتی تبدیلی اور ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ) کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کیا جا سکے تاہم تازہ ترین 48صفحات پر مشتمل قومی سلامتی پالیسی دستاویز واضح طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ بیجنگ امریکہ کے لئے چیلنج بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ وقت کے ساتھ امریکی خطرے کا تصور کس طرح بدل گیا ہے اور یہ کہ امریکہ اب چین کو اپنی بے مثال عالمی بالادستی کے لئے ایک اہم سکیورٹی خطرہ سمجھتا ہے۔

 ٹرمپ انتظامیہ کی دوہزارسترہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ ”کئی دہائیوں سے‘ امریکی پالیسی کی جڑیں اس یقین پر تھیں کہ چین کے عروج اور جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام میں اس کے انضمام کی حمایت چین کو آزاد کر دے گی‘ تاہم اِن توقعات کے برعکس‘ دستاویز نے رائے دی کہ بیجنگ نے ”دوسروں کی خودمختاری کی قیمت پر اپنی طاقت کو بڑھایا۔ یہ ہماری اپنی فوج کے بعد‘ دنیا میں سب سے زیادہ قابل اور اچھی مالی امداد سے چلنے والی فوج بنا رہا ہے۔ چین ہند بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کو بیدخل کرنے‘ اپنے ریاستی اقتصادی ماڈل کی رسائی کو بڑھانے اور خطے کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے‘ لہٰذا ٹرمپ انتظامیہ ڈھائی سو ارب ڈالر مالیت کی چینی برآمدات پر دس سے پچیس فیصد تک جرمانے عائد کرکے اور چینی چپ میکر پر کامرس ڈیپارٹمنٹ کے خصوصی لائسنس کے بغیر امریکی اجزأ خریدنے پر پابندی لگا کر تیزی سے جارحانہ انداز اختیار کرنے لگی۔

 اپنے چار سالوں دوہزارسترہ سے دوہزار اکیس کے دوران‘ سابق صدر ٹرمپ نے پنتیالیس سال پرانی خارجہ پالیسی کو ترک کیا جس کا مقصد بیجنگ کو مغرب جیسا بننے پر آمادہ کرنا تھا۔ بہت سے مبصرین کے لئے حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر ٹرمپ کی برتری کی پیروی کی ہے۔ چین کو امریکہ کی عالمی بالادستی ’چیلنج‘ کرنے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاثر باضابطہ طور پر سابق صدر اوباما کی چین کو ’مشتمل‘ رکھنے کی پالیسیوں جیسا کہ ’پیوٹ ٹو ایشیا‘ اور ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) میں ظاہر ہوا تھا۔ یہ فوجی حقیقت کو تقویت دیتے ہیں جہاں بڑے امریکی اڈے پہلے سے ہی مشرق اور مغرب میں چین کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی بحرالکاہل کے بحری بیڑے کی ’پولیسنگ‘ دنیا کے کچھ مصروف ترین اور تیزی سے بڑھتے ہوئے تجارتی راستوں کو چین کی بڑھتی ہوئی خوشحالی سے متاثر کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے ایک بڑی منتقلی یہ ہے کہ صدر بائیڈن نے نیٹو جیسے موجودہ اتحادوں کو مضبوط کیا ہے اور ’ہم خیال جمہوریتوں‘ کے ساتھ نئے اسٹریٹجک اتحاد بنا کر امریکی اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے۔

 تازہ ترین قومی سلامتی کی حکمت عملی میں اس حقیقت کا بخوبی اعتراف کیا گیا ہے جیسا کہ اس میں فخر سے کہا گیا ہے کہ انڈو پیسیفک کواڈ (آسٹریلیا‘ بھارت‘ جاپان‘ امریکہ) سے لے کر یو ایس یورپی یونین ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل تک‘ AUKUS (آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ امریکہ) سے U2-12 (بھارت‘ اسرائیل‘ یو اے ای‘ یونائیٹڈ سٹیٹس) تک‘ امریکہ مضبوط‘ لچکدار اور باہمی طور پر تقویت دینے والے تعلقات کا ایک جال بنا رہا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ جمہوریتیں اپنے لوگوں اور دنیا کی بہتری کے لئے کام کر سکتی ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کے گراہم ایلیسن نے اپنی کتاب میں سولہ کیسز کے ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے جن میں ایک چڑھتی ہوئی طاقت نے گزشتہ پانچ سو سالوں میں طاقت کے موجود تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اِن سولہ منظرناموں میں سے بارہ میں جنگ چھڑ گئی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جب بائیڈن اور صدر ژی دونوں اپنے اپنے ممالک کو دوبارہ عظیم بنانے کی راہ پر گامزن ہیں تو وہ ہوش و حواس سے کام لیں گے اور تصادم کی بجائے تعاون اور باہمی بقائے باہمی کی کوشش کریں گے جو نہ صرف امریکیوں اور چینی شہریوں کیلئے ضروری ہے بلکہ بڑے پیمانے پر عالمی برادری کیلئے بھی جو موسمیاتی تبدیلی کے وجودی خطرے سے دوچار ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر مراد علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)