موذی مرض

گرمی کی شدت کم ہوچکی ہے اور سردیاں دبے پاؤں آن پہنچا ہے۔ اچھی بُری یادوں کے ساتھ ایک اور رت بدل رہی ہے اور اِس معمول میں سال دوہزاربائیس اپنے اختتامی ایام کی طرف بڑھتے ہوئے ماضی بننے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ زندگی بھی شاید یونہی تمام ہوتی ہے کہ سکون کا سانس بھی نہیں لینے پاتے کہ موت کا ’بلاوا‘ آ جاتا ہے۔ زندگی کی شام اس طرح سب منظر دھندلا دیتی ہے کہ کوئی جان ہی نہیں پاتا کہ کب اور کیسے سفر تمام ہوگیا؟ البتہ زندگی کا حق یہ ہے کہ ہر انہونی سے لڑا جائے۔ ایسی ہی صورتحال و ضرورت سرطان (کینسر) سے مقابلہ کرنے کی ہے۔ ہر سال ماہ اکتوبر عالمی سطح پر ”چھاتی کے کینسر“ کے بارے معلومات پھیلانے کے طور پر منایا جاتا ہے اور اِس دوران ”گلابی“ رنگ والی پٹی (ربن) کو بطور ”بریسٹ کینسر ایورننس“ کی علامت استعمال کیا جاتا ہے۔چھاتی کے سرطان کی شرح عورتوں میں پائے جانے والے دیگر اقسام کے سرطانوں میں سب سے زیادہ یعنی اِس کا تناسب پچیس فیصد تک ہے۔ یہاں ایک اور بات سمجھ لیجئے کہ چھاتی کا سرطان مردوں میں بھی پایا جاسکتا ہے اگرچہ اس کی شرح تناسب عورتوں کے مقابلے میں معمولی ہے۔ سرطان کیا ہوتا ہے؟ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو جسم کا کوئی حصہ اپنی بڑھوتری میں بے قابو ہوجائے اور اُس کے خلیے (سیلز) ازخود بڑھنا شروع کردیں اور پھر نہ رکیں تو جسم کے کسی ایک حصے میں پیدا ہونے والی اِس ’باغیانہ صورتحال‘ کو کینسر کہا جاتا ہے اور اگر اُس متاثرہ حصے کو کاٹ کر الگ نہ کیا جائے یا پھر پورے بدن میں بڑھوتری کے عمل کو نہ روکا جائے تو ”آزاد باغی خلیے“ جسم کے دیگر تندرست حصوں کو متاثر کرنے لگتے ہیں اور یوں سرطان کسی ایک حصے سے شروع ہو کر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔  چھاتی کا سرطان اگر ابتدائی مرحلوں میں تشخیص ہوجائے تو قابلِ علاج ہے لیکن اگر تیسری یا چوتھی سٹیج تک پہنچ جائے تو موت دستک دینے لگتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال سترہ ہزار عورتیں چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں لیکن کچھ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی خواتین میں ’چھاتی کے سرطان‘ کی شرح چالیس فیصد تک ہے اور بے شمار عورتیں بروقت تشخیص نہ ہونے کے سبب مر رہی ہیں۔ دنیا اکیسویں صدی سے گزر رہی ہے اور اب چونکہ امراض کی تشخیص زیادہ وسیع پیمانے پر ہوتی ہے اِس لئے چھاتی کے کینسر سے گھبرانے کی بجائے اِس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی حد کا تعین کرنا نہیں آتا۔ کس کی کیا حدود ہیں‘ کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں یہ بات نہ کوئی جانتا ہے اور نہ کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی ہر کسی کے بارے میں بلاتکلف رائے کا اظہار‘ ذاتی معاملات میں تجسس اور پھر ہر معاملے بلکہ ہر مرض میں اپنی ماہرانہ ٹانگ اڑانا فرض اوّلین سمجھتا ہے۔  خواتین اور ہر کس و ناکس کو سرطان کے خلاف آگاہی کے جاری مہینے میں سمجھنا اور سمجھانا چاہئے کہ چھاتی کا کینسر بھی ایک مرض ہے جو کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنا جسمانی معائنہ باقاعدگی سے خود کریں۔ اگر جسم کے کسی بھی حصے بالخصوص چھاتی یا اِس کے اطراف میں کبھی بھی کوئی گلٹی (سختی) محسوس ہو اور چھاتی کی جلد لال پڑجائے یا پانی نکلتا محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ میمو گرام کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ پچاس سال کی عمر کے بعد اِسے فریضہ سمجھ کر (لازماً) کروانا چاہئے۔ امریکن گائیڈ لائن کے مطابق چالیس سال سے میموگرافی کروانا شروع کیا جاسکتا ہے۔ ایسے کئی مریض ہیں جنہوں نے میموگرام معائنہ باقاعدگی سے کروایا اور اِس کی وجہ سے کینسر اپنی پہلی سٹیج ہی میں پکڑا گیا۔ وہ خواتین جن کے خاندان میں پہلے سے کسی کو چھاتی کا کینسر ہے انہیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ خاندانوں میں جینیاتی طور پر یہ کینسر جینز میں پایا جاتا ہے۔ ایسے خاندان کی ہر عورت کو اپنا جینیاتی تجزیہ لازمی طور پر اور باقاعدگی سے کروانا چاہئے۔ مردوں سے درخواست ہے کہ وہ خواتین کو آگہی‘ عزت و اعتماد اور کینسر کے بچاؤ کے طریقوں کے بارے تعلیم دیں اور اُن کی مدد کریں۔ چاہے وہ عورت آپ کی ماں ہو یا آپ کے بچوں کی ماں ہو یا آپ کی آغوش کا پھول۔ سرطان سے بچنے کی کوششوں اور اِس موذی مرض کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)