تحفظ ماحول کی کوششیں اور اِس سلسلے میں قومی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات سے بڑھتے ہوئے انسانی اور معاشی نقصانات نے پاکستان میں قومی سطح پر جاری ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عالمی سطح پر بھی بہت سے کارکن اور پالیسی ساز کم کاربن خارج کرنے والے متاثرہ ممالک کے لئے معاوضے کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عالمی ماحولیاتی انصاف کے لئے بین الاقوامی میکانزم‘ متفقہ اصولوں اور کام کرنے والے ادارے تیار کرنے میں برسوں لگیں گے لیکن پاکستان نے مقامی طور پر قانونی نظام میں آب و ہوا کے انصاف کے لئے بنیادی کام کر لیا ہے جو نفاذ اور تعمیل کا منتظر ہے۔ عالمی ماحولیاتی انصاف پاکستان کے لئے اس وقت تک مشکل رہے گا جب تک کہ داخلی طور پر ہماری پالیسیاں واضح نہ ہوں۔ ماحولیاتی اور آب و ہوا کے انصاف کے اصول پچاس سال پہلے سٹاک ہوم اعلامیہ کے ساتھ شروع ہوئے تھے۔
ان اصولوں کو تیس سال قبل ’ریو ڈی جنیرو‘ میں ہوئی ’ارتھ سمٹ‘ میں پیش کیا گیا اور عالمی سطح پر اپنایا گیا۔ ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کو عملی شکل دینے کی کوششوں کے ساتھ‘ دنیا نے ماحولیاتی انصاف کو بنیادی طور پر آئینی قانون اور انسانی حقوق قرار دیا۔ اِس متعلق منصوبہ بندی‘ لائسنسنگ اور اجازت کا تصور دیا۔ کمپنی قوانین وضع کئے اور قوانین تشکیل دیئے گئے۔ سٹاک ہوم اعلامیہ کی روشنی میں پاکستان کی پہلی ماحولیاتی قانون سازی کی گئی جس کے تحت وزارت ماحولیات اور ماحولیات کے تحفظ کے اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ 1972ء کے بعد سے تمام کثیرالجہتی ماحولیاتی معاہدے اور ماحولیاتی کنونشن بھی اِسی اعلامیہ کی روشنی میں مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان نے تقریباً سبھی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کمزور ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قوانین و قواعد جس قدر بھی تشکیل دیئے جائیں اگر اُن پر عمل درآمد اور کارکردگی کا احتساب نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔
ماحول سے متعلق ہمارے کئی فیصلوں نے ہمارے دائرہئ اختیار میں آب و ہوا کے انصاف کے پیرامیٹرز کی وضاحت کی ہے۔ اصغر لغاری کیس دوہزارپندرہ سے شروع کرتے ہوئے جس میں شہریوں کے آب و ہوا کے حقوق اور حکومتی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کئی فیصلوں میں ماحولیاتی نظام‘ زمینی اور جنگلاتی وسائل کی سالمیت کی ضرورت پر زور دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کے اہم فیصلے نے سماجی اور اقتصادی انصاف کی ہماری آئینی اقدار کو اجاگر کیا اور ماحولیاتی موافقت‘ لچک اور پائیداری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایک اور معاملے میں‘ انہوں نے شہری منتظم اداروں کو ماسٹر پلاننگ دستاویزات میں تبدیلیوں سے باز رہنے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کیونکہ زمین کے استعمال میں کسی قسم کی تبدیلی سے ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اور مقدمے میں انہوں نے اِس عزم کا اظہار کیا کہ جانوروں کی بھلائی کو نظر انداز کرنے سے انسانوں کے زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح جسٹس جواد حسن نے مری میں شہری جنگلات‘ خوراک کے ضیاع اور حیاتیاتی تنوع کے بارے میں اہم فیصلے سنائے۔ پہاڑی ماحولیاتی نظام‘ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں پر مبنی ہونا چاہئے۔ اعلیٰ عدالتوں نے ملک کے سب سے نامور ماحولیاتی قانون داں ڈاکٹر پرویز حسن کی سربراہی میں کئی کمیشن قائم کئے تاکہ اہم سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کیا جا سکے اور اتفاق رائے‘ پیدا کر کے اِن کی صلاحیتوں اور علم سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: علی توقیر شیخ۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)