جنوبی ایشیا میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ملک ہونے کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستان‘ جو کہ کبھی ایک بڑا نان نیٹو امریکی اتحادی تھا‘ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور شاید ہی دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک نے امریکہ کا اتحادی ہوتے ہوئے اپنے مفادات اِس حد تک قربان کئے ہوں۔ پاکستانی عوام اور سیکورٹی فورسز نے بے مثل و بے مثال سیاسی‘ معاشی اور انسانی مصائب دیکھے اور اِس کے باوجود سپر پاور کو دہشت گردی کے حملوں سے بہت زیادہ محفوظ اور محفوظ بنانے کے لئے واشنگٹن نے اسلام آباد کی شراکت کو نظرانداز کیا اور پاکستان کی بجائے بھارت کو زیادہ محبوب (پسندیدہ بنائے رکھا)۔ امریکہ میں پالیسی سازوں نے پاکستان کو چھوڑ دیا اور ہند بحرالکاہل میں اپنے سٹریٹجک اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے لئے بھارت سے امیدیں وابستہ کر لیں۔ نئی دہلی کو مطمئن کرنے کے لئے واشنگٹن کے برسوں سے جاری نرم طرز عمل کے باوجود‘ بھارت کبھی بھی واشنگٹن کی توقعات پر پورا نہیں اُترا۔ بھارت نے روس سے S-400 نامی میزائل ڈیفنس سسٹم اور روس پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود اُس سے پیٹرولیم مصنوعات خریدا۔ انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک سے پہلے انحراف کے بعد کواڈ فرنٹ لائن سٹیٹ میں ایک بار پھر وزارتی بیان سے دستبردار ہو کر بھارت نے امریکہ کو دھوکا دیا۔
مذکورہ فریم ورک کا سب سے بڑا ستون تجارت طے کیا گیا تھا۔ بائیڈن کے روسٹر میں آئی پی ای ایف کے ذریعے ایشیا میں ماحول‘ مزدوری اور دیگر معیارات کی بہتری شامل ہے۔ اس کے باوجود بھارت نے ایک پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے تمام اعلیٰ معیاری دفعات کو روند ڈالا نتیجتاً نئی دہلی کی امریکہ کے ساتھ وابستگی پر ابہام پیدا ہوا ہے جس سے دیگر ممالک کا یقین بھی متزلزل ہوا ہے۔ مذکورہ فریم ورک ایک آزاد تجارتی معاہدہ نہیں۔ یہ ریجنل کمپریہنسیو اکنامک ایگری منٹ (آر سی اِی پی) ہے‘ جس میں دو ارب کی آبادی اور باسٹھ کھرب ڈالر سے زائد کی جی ڈی پی تجارت‘ سرمایہ کاری اور اقتصادی و تکنیکی تعاون کے علاؤہ نئے قوانین کی تشکیل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اِس میں ای کامرس اور کاپی رائٹ کے تحفظ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بھارت ’آر سی ای پی‘ سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ یہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا ’ایف ٹی اے‘ ہے۔ واشنگٹن امریکی سٹریٹیجک مفادات کو ترجیح دے کر خطے کے ممالک کے معاشی عزائم کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
نئی امریکی ہند بحرالکاہل حکمت عملی اکیسویں صدی میں خطے کی سٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے فوجی موجودگی کم کرنے کے سوچے سمجھے لیکن درحقیقت ایک مسترد شدہ‘ خیال کی وضاحت ہے۔سال دوہزارسترہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خطے کی معیشت کے لئے امریکی پیش رفت اور ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ سے پیچھے ہٹنے کے بعد‘ بائیڈن نے اپنے پیشرو کی الگ الگ مفادات کو برقرار رکھا اور علاقائی امن اور خوشحالی کے لئے خاطرخواہ منصوبہ بندی نہیں کی۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں علاقائی سلامتی کے بارے میں دیگر ہند و بحرالکاہل ریاستوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے۔ رکن ممالک کے درمیان سپلائی چینز پر اوور لیپنگ مفادات ’آئی پی ای ایف‘ کی کامیابی کو مزید دھندلا رہے ہیں۔ جنوبی کوریا خود کو فریم ورک کے اندر ایک اصول ساز کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کا افراط زر میں کمی کا ایکٹ شمالی امریکہ میں جمع ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں کو ٹیکس کریڈٹ فراہم کرکے کثیرالجہتی اور سیؤل کی معاشی خواہشات کے لئے خطرہ بنا رہا ہے۔
مذکورہ قانون نہ صرف امریکہ میں سرکردہ کوریائی ’ای وی‘ کمپنیوں کے لئے نقصان کا باعث ہے بلکہ یہ اِنہیں سپلائی چین کے بڑھتے ہوئے بحران میں بھی دھکیلتا ہے کیونکہ مینوفیکچررز کو دوہزارتیئس میں کم از کم چالیس فیصد سے دوہزاراُنتیس میں اَسی فیصد تک ’ای وی بیٹری‘ کے اجزأ کی فراہمی کی ضرورت ہوگی۔ رواں ماہ کے شروع میں کوریا کی پارلیمنٹ نے نئے قوانین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد بھی منظور کی تھی۔ اگرچہ اِس سکیم کا مقصد چین پر انحصار کم کرنا ہے اور لاکھوں امریکی مینوفیکچرنگ ملازمتیں پیدا کرنے پر زور دیتا ہے‘ اگر اِس میں عوامی جمہوریہ چین کو شامل نہ کیا جائے تو یہ منصوبہ رکاوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جہاں اعلان کردہ الیکٹرک وہیکل بیٹریز کی پیداواری صلاحیت کا تقریباً ستر فیصد سال دوہزارتیس تک مرکوز ہونے کا امکان ہے۔ جاپان اور یورپی یونین نے بھی امریکہ کو اپنے اتحادیوں کے تئیں اِس کے متعصبانہ رویئے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے‘ ان ممالک کا خیال ہے کہ عالمی پابندیاں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قواعد اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا باعث ہو سکتے ہیں۔
’آسیان‘ کا یہ نظریہ کہ انڈو پیسیفک چین امریکہ کے مقابلے زیادہ ترقی کر رہا ہے‘ امریکی شراکت داروں کے درمیان تائیوان جیسے ’علاقائی فلیش پوائنٹس‘ پر تصادم کی صورت میں چین کو روکنے کی صلاحیت کے بارے میں تشویش کا باعث بنا ہوا ہے اگرچہ مذکورہ بلاک کی امریکہ اور چین کے کیمپوں میں داخلی تقسیم امریکی ہند بحرالکاہل کی حکمت عملی کی کامیابی پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ اقدام آسیان کی جانب سے ہلکے پھلکے ردعمل کا خطرہ رکھتا ہے۔ ’آئی پی ای ایف‘ دس رکنی اتحاد کی طرف سے اپیل کر سکتا ہے کیونکہ یہ ٹیرف اور مارکیٹ تک رسائی پر کسی بھی بات چیت کو سختی سے مسترد کرتا ہے اور ساتھ ہی جاری ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور آسیان کی مرکزیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئی پی ای ایف میٹنگ نے کوئی رسمی معاہدہ نہیں کیا۔ یہ ایک رسمی اجتماع تھا جس میں ہند بحرالکاہل کے لئے امریکی وابستگی کو ظاہر کیا گیا ہے اور محصولات و تجارت اور سرمایہ کاری کی رکاوٹوں کو برقرار رکھنے کے بارے میں بائیڈن کے مؤقف کی توثیق کی گئی ہے لیکن بھارت ہر عالمی اتحاد اور ہر اعتماد کی کوشش کی راہ میں بارودی سرنگ ڈال دیتا ہے جس کی بدولت سب سے زیادہ نقصان امریکی مفادات کا ہو رہا ہے۔ امریکہ بھارت کے ساتھ دوستی میں اب تک جو اسباق ملے وہ اگر اُنہیں فہرست کرے اور سودوزیاں کا حساب کرے تو بالآخر امریکہ کو پاکستان جیسے ایک اتحادی کی تلاش و جستجو کرنا پڑے گی‘ جو اُسے شاید کبھی نہ ملے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اظہر اعظم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)