مالیاتی نظم و ضبط: روشن امکانات

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنا اور دستاویزی معیشت کا فروغ ہے۔ دنیا میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ”غیر دستاویزی یا گرے معیشت“ ختم کئے بغیر مالیاتی نظم و ضبط لاگو کرنا ممکن نہیں ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ قانونی طور پر کمائے گئے سرمائے کا فروغ اور غیر قانونی ذرائع سے سرمائے کی نقل وحرکت کو مشکل سے مشکل بنانے کے لئے غوروخوض کا عمل جاری رہتاہے۔ کوشش یہ ہے کہ دنیا بھر میں سرمائے کی منتقلی کے لئے بینکاری ذرائع کا استعمال کیا جائے اور نقد لین دین کی حوصلہ شکنی ہو۔1990ء کی دہائی میں جب عالمگیریت کا نظریہ اپنے ابتدائی مراحل میں تھا تو اس وقت محسوس کیا گیا کہ اگر سرحد پار سرمائے نقل وحرکت کا ایک نظام وضع نہیں کیا گیا اور زیرِ زمین سرمائے پر قابو نہ پایا گیا تو اس سے حکومتیں کمزور اور غیر ریاستی عناصر مضبوط ہوجائیں گے‘ یوں سرمائے کی منتقلی پر نظر رکھنے اور غیر دستاویزی معیشت کے خاتمے کے لئے ’ایف اے ٹی ایف‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یوں سرمائے کی غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے نقد رقم کی منتقلی اور بین الصوبائی نقل و حرکت کو روکنے کے اقدامات کئے گئے جن سے متعلق ’ایف اے ٹی ایف‘ نے شرائط وضع کیں۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نقد رقم کی منتقلی کے لئے اب ایک خاص حد مقرر کردی ہے اور اس سے زائد جو بھی رقم ہوگی وہ بینکاری نظام کے ذریعے ہی منتقل کی جاسکے گی جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیارات بھی دے دیئے گئے کہ اگر ایک مقررہ حد سے زائد نقد رقم کسی شہر یا صوبے سے باہر لے جائی جارہی ہو تو اس کو اس وقت تک ضبط رکھا جائے جب تک اس رقم کے قانونی ہونے کا ثبوت پیش نہ کیا جائے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ کی ’گرے لسٹ‘ سے اخراج کے بعد پاکستان کے حوالے سے یہ امکان مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بلیک لسٹ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اس کے علاوہ اس سے پاکستان کی معیشت کو دستاویزی بنانے میں بھی مدد ملی ہے۔ غیر قانونی ذرائع سے کمائی گئی دولت کو استعمال کرنا اور اس سے سرمایہ کاری کرنا مشکل ترین ہوگیا ہے جبکہ رقوم کی نقد نقل و حرکت کی حوصلہ شکنی سے ملکی بینکاری صنعت فروغ پائے گی اور بچتوں (سیونگز) کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں کی حکومت غریب اور عوام امیر ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب دس فیصد سے بھی کم ہے جبکہ یہ مانا جاتا ہے کہ جس ملک کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بیس فیصد سے زائد ہو وہ ملک مالی طور پر مستحکم ہوتا ہے۔ اس وقت بھی پاکستان سمیت اُنتیس ممالک ایسے ہیں جن کو عالمی مالیاتی اداروں سے بیل آؤٹ پیکجز کی ضرورت ہے اور ان تمام ملکوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں ’جی ڈی پی‘ کے مقابلے ٹیکس کا تناسب بہت کم ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا تھا کہ پاکستان میں کم از کم تین ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے اور اگر پاکستان اس ٹیکس چوری پر قابو پالے تو اس کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے کسی ملکی اور غیر ملکی قرض پر انحصار نہیں کرنا پڑے اور بجٹ میں اس بات کی گنجائش پیدا ہو کہ عوامی فلاح‘ تعلیم اور صحت پر زیادہ اخراجات ہوسکیں۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ معیشت میں ٹیکس چوری کو ختم کرنے کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کرنے کا کہتا ہے۔ پاکستان میں لوٹی گئی دولت کی بیرونِ ملک منتقلی کے حوالے سے بہت بات ہوتی ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ملکی دولت کو لوٹ کر بیرونِ ملک بینکوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ’ایف اے ٹی ایف‘ بدعنوانی سے کمائی گئی دولت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ انسدادِ منی لانڈرنگ کے سخت قوانین کی ترویج اور ان پر عملدرآمد کا کہتا ہے تاکہ اگر کسی ملک سے لوٹی گئی دولت کسی دوسرے ملک منتقل کی گئی ہو تو اس کی نگرانی کی جائے اور سرحد پار ہونے کے بعد بھی اس دولت کے کمائے جانے کے طریقہ کار اور اس پر ادا کئے گئے ٹیکس کے حوالے سے تفصیلات دستیاب ہوں۔ پاکستان سے بیرونِ ملک سفر کرنے والے بہت سے لوگ نقد زرِمبادلہ بیرون ملک بطور کیریئر منتقل کرتے تھے۔ اس حوالے سے کسٹمز حکام نے متعدد افراد کو روکا اور ان کی پروفائلنگ بھی کی جس کے بعد اس عمل میں بہت حد تک کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر سونے کو ملک سے باہر لے جانے کا عمل بھی بڑے پیمانے پر جاری تھا۔ جو ملک ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ یا واچ لسٹ پر ہوں انہیں عالمی اداروں سے قرض ملنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ عالمی بینک‘ آئی ایم ایف‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر کوئی ملک گرے لسٹ میں شامل ہوجائے تو اس کی معاونت کرنے کے حوالے سے یہ مالیاتی ادارے بھی ہاتھ سخت کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ کے حالیہ پروگرام میں سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے سخت ترین شرائط اور غیر لچکدار رویئے کا سامنا رہا اور اب چونکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل چکا ہے تو شاید اسی لئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار ’آئی ایم ایف‘ سے شرائط کو نرم کروانے کی بات کررہے ہیں کیونکہ پاکستان کے ’ایف اے ٹی ایف‘ کے گرے لسٹ سے خارج ہونے کے بعد عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی رویہ نرم ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اسفند علی خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)