سیلاب متاثرین خواتین کے مسائل

کمزور افراد کو ہنگامی حالات میں مؤثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی بھی آفت میں خواتین اور بچوں کو پہلے بچایا جاتا ہے۔ سندھ یا بلوچستان کے کسی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک حاملہ خاتون کا تصور کریں جو کمزوری کی وجہ سے زرد پڑ چکی ہے اور اکثر جب وہ اٹھتی ہے تو خون میں غذائیت (ہیموگلوبن) کی کمی کے باعث اسے چکر محسوس ہوتے ہیں۔ اس عورت کا گھر سامان سمیت سیلاب میں بہہ چکا ہے۔ مویشی‘ فصلیں اور بیج بھی سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں اور آمدنی کا کوئی ممکنہ ذریعہ نہیں رہا ہے۔ وہ ایک خیمے میں محسور ہے (یہ بھی ایک نعمت ہے) اور اپنے تین چھوٹے بچوں کی سلامتی کے لئے فکرمند ہے جن میں سے ایک بہت بیمار ہے‘ اس کا خاوند بھی پریشان حال ہے۔ وہ خوراک کے حصول‘ موسمِ سرما کے آنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ یہ خاتون سیلاب سے متاثر ہونے والی 6لاکھ 50ہزار حاملہ خواتین میں سے ایک ہے۔ یہ ان ایک لاکھ اٹھائیس ہزار حاملہ خواتین میں شامل ہیں جنہیں فوری طور پر مدد کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں سے بیالیس ہزار خواتین اگلے تین ماہ میں زچگی کے عمل سے گزرنے والی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ’اقوام متحدہ‘ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کینم کی جانب سے جاری کئے گئے۔

 حاملہ خواتین کی ممکنہ تعداد جاننے کے لئے ایک سادہ شماریاتی فارمولہ موجود ہے جس سے پیدا ہونے والے بچوں کی ممکنہ تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے‘ عموماً پندرہ فیصد حمل میں رسک بہت زیادہ ہوتا ہے جنہیں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ’نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈی نیشن سینٹر‘ اب ہر ضلع کے لحاظ سے زچہ کی صحت کے حوالے سے اشاریئے فراہم کررہا ہے لیکن یہ تخمینہ ہی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں صحت کے ڈیجیٹل نظام کی عدم موجودگی کے باعث‘ ہمارے پاس درست اور تازہ اعداد و شمار نہیں ہیں۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیلاؤ‘ جلد کے امراض‘ دیگر نئی اور موجودہ بیماریوں کے ساتھ ساتھ ’ہیضے میں تشویشناک اضافے‘ سے ہورہا ہے اور عالمی ادارہئ صحت کے مطابق ’صحت ِعامہ تباہی کے دہانے پر ہے‘ اسے دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ صحت ِعامہ کی ہنگامی صورتحال کو حاملہ خواتین کی ضروریات پر ترجیح دی جائے گی۔حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک ماہرِ امراض نسواں اور ڈاکٹر سعدیہ ملک سے بات چیت کا موقع ملا جنہوں نے ایک اہم مسئلہ اٹھایا۔ پوسٹ مارٹم ہیموریج (پی پی ایچ) پاکستان میں زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔

 پاکستان میں ’پی پی ایچ‘ روکنے کے لئے استعمال ہونے والا ’ہیٹ اسٹیبل کاربیٹوسن‘ دستیاب نہیں ہے ’پی پی ایچ‘ روکنے کے لئے سب سے مؤثر دوا ’اوکسیٹوسن انجکشن‘ ہیں جنہیں دو ڈگری سے آٹھ ڈگری سیلسیس (درجہئ حرارت) کے درمیان رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر اسے مطلوبہ درجہ حرارت میں نہ رکھا جائے تو یہ دوا اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ ’اوکسیٹوسن‘ کے مقابلے میں ’کاربیٹوسن‘ کے انجکشن کو ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ تیس ڈگری کے درجہ حرارت پر تین سال تک مؤثر رہتا ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں ’اوکسیٹوسن‘ کو اس کے مطلوبہ درجہ حرارت پر نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے وہ ’پی پی ایچ‘ کنٹرول نہیں کر پاتا۔ کاربیٹوسن بھی نسبتاً دیرپا اور آکسیٹوسن سے زیادہ مؤثر ہے۔ یہ دوائی تیس سے زائد ممالک میں دستیاب ہے لیکن پاکستان میں نہیں کیونکہ کسی نے بھی آج تک ’ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)‘ کو دوائی کی مارکیٹ اتھرائزیشن کے لئے درخواست نہیں دی اب جبکہ یہ مسئلہ نجی امدادی ادارے اور تنظیمیں اٹھا رہی ہیں اور پاکستان میں سیلاب متاثرین میں شامل حاملہ خواتین کے لئے مطلوبہ دوا کی دستیابی کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

 اُمید ہے کہ جلد ہی مذکورہ دوا جلد دستیاب ہو جائے گی کیونکہ ڈریپ کی جانب سے ’این اُو سی‘ ملنے کے بعد ’سوئٹزرلینڈ‘ میں موجود کمپنی سے یہ دوا بطور عطیہ حاصل کی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ الخدمت ہیلتھ فاؤنڈیشن کی جانب سے شروع کئے گئے اس منصوبے کے آغاز سے اب تک 910حاملہ خواتین کی شناخت اور اندراج عمل میں آچکا ہے‘ ان خواتین کا خیال رکھا جارہا ہے اور محفوظ زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال میں ان کی مدد کی جائے گی۔ اس پروگرام کے تحت اب تک آٹھ محفوظ زچگیاں عمل میں آچکی ہیں۔ سننے میں شاید یہ تعداد کم لگ رہی ہو لیکن اس مقصد کے لئے کام کرنے والی ٹیم اب اس منصوبے کو قومی تحریک کی شکل دینا چاہتی ہے تاکہ اس ہنگامی صورتحال کے علاوہ بھی محفوظ حمل اور زچگی کو خاص طور پر غریب اور کمزور افراد کے لئے یقینی بنایا جاسکے‘ جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ (مضمون نگار سابق مشیر خصوصی برائے وزیراعظم ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ظفر مرزا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔