ملک کے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سٹریٹ کرائمز (سر راہ ہونے والے جرائم) کی تعداد میں ’غیر معمولی اضافہ‘ ہوا ہے۔ اِس سلسلے میں سرکاری اعداد و شمار سامنے آئے ہیں جبکہ یہ معاملہ قانون ساز ایوان (پارلیمنٹ) میں بھی زیر بحث آیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق لاہور میں گزشتہ چار مہینے کے دوران چوری‘ ڈکیتی‘ موٹر سائیکلوں و گاڑیوں کی چوری‘ موبائل فونز اور ہینڈ بیگ چھیننے سمیت سٹریٹ کرائم میں دوسو فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پولیس کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سٹریٹ کرائمز کی شرح اس سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔ سال دوہزاربائیس میں سٹریٹ کرائم کے 56 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور یہ تعداد گزشتہ سالوں کے رپورٹ کئے گئے جرائم سے تعداد میں کہیں گنا زیادہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جرائم کی یہ صورتحال دوسرے قصبوں اور شہروں میں بھی ایسی ہی ہے‘ حالانکہ اعداد و شمار حاصل کرنا ہمیشہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ ایسے کتنے ہی جرائم رونما ہوتے ہوں گے جن کے بارے میں پولیس کو اطلاع نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ جب جرائم سے متعلق اعدادوشمار مرتب ہوتے ہیں تو ایسے بہت سے جرائم جو کہ رپورٹ نہیں ہوتے شمار سے رہ جاتے ہیں۔
کراچی میں پولیس پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ تنہا صورت حال سے نمٹنے کے قابل نہیں اور اس نے دیگر ایجنسیوں اور حکام سے جرائم پر قابو پانے کے لئے مدد طلب کر رکھی ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوران کراچی شہر میں سٹریٹ کرائمز کے دوران کم از کم چار سے پانچ افراد مارے جا چکے ہیں اور لاہور میں بھی اِسی طرح کی اموات ہوئی ہیں حالانکہ یہ تعداد کم ہے۔ لاہور میں لگائے گئے ’سیف سٹی‘ کیمروں کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ سٹریٹ کرائم روکنے میں مددگار ثابت ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کیمرے گنجان آباد علاقوں میں کام ہی نہیں کر رہے اور کیمروں سے نگرانی کا معاملہ مہنگے رہائشی علاقوں تک محدود دکھائی دیتا ہے جبکہ غریب اور کم آمدنی رکھنے والے لوگ جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں کیمروں کے ذریعے نگرانی کا نظام خاطرخواہ وسیع اور فعال نہیں ہے۔
جرائم میں اضافے کی ایک وجہ شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے کا رجحان ہے اور اِس قسم کی نقل مکانی سے متعلق حکومتی اداروں نے تو منصوبہ بندی کر رکھی ہے اور نہ ہی اُنہیں معلوم ہے کہ کس طرح نقل مکانی اور کہاں کہاں ہو رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سٹریٹ کرائم میں اضافے کی اصل وجہ غربت میں اضافہ اور لوگوں کی پائی جانے والی مایوسی ہے۔ گزشتہ چار مہینوں میں ملک کو تباہ کرنے والے سیلاب نے اس غربت و مایوسی کی شرح میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔خاص طور پر اشیائے خوردونوش‘ یوٹیلیٹیز اور ایندھن جیسی اہم اشیا کی قیمتوں میں زبردست افراط زر اس مسئلے میں اضافے کا باعث ہے۔
ملک میں غربت کی شرح میں اضافے کی نشاندہی ماہرین کی جانب سے بار بار کی جاتی ہے جیسا کہ عاطف میاں جیسے ماہر معاشیات نے نشاندہی کی ہے۔ اس حقیقت سے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے پچاس فیصد بچے لاغر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے متوقع قدکاٹھ تک نہیں پہنچ سکتے۔ دیگر صوبوں بشمول سندھ اور بلوچستان میں بھی بچوں کا اکثریت کم غذائیت کا شکار ہے کیونکہ ملک کے چاروں صوبوں میں ایسے علاقے پائے جاتے ہیں جہاں کے رہنے والے کسی نہ کسی صورت غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اِس کے علاوہ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو شدید خون کی کمی کا شکار ہیں اورمناسب خوراک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ لاغرپن کا شکار ہوتی ہے۔
پاکستان کی اپنی آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے میں ناکامی ان عوامل میں سے ایک ہے جو اس کی غربت کی سطح میں اضافے کا باعث ہے جرائم کی شرح بڑھنے کی یہ صورت حال تشویشناک ہے۔سوال یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اِن مسائل کو خاطرخواہ توجہ کیوں نہیں دے رہی؟ سوال یہ ہے کہ اِن حالات میں کیا کیا جائے اور کیسے کیا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بڑھتی ہوئی غربت کے مسئلے اور اِس غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کاملہ حیات۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)