گرے لسٹ سے نکالنے والے ہیروز کون ہیں؟

اسلام آباد کے سیکٹر جی 8 میں واقع وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفتر میں ہیجان کی فضا تھی۔ پورا دفتر شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔ عملہ بھی خوب سوٹڈ بوٹڈ تھا، کئی کی وردیاں بھی نئی تھیں۔ عملے کے چہرے جوش و خروش سے دمک رہے تھے۔ وہی جوش جو کسی نتیجہ خیز آخری معرکے سے پہلے سرحد پر کھڑے کسی سپاہی کے چہرے پر ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ آنکھوں میں خوف کے سائے بھی تھے۔یوں تو افسران اور سرکاری ملازمین کے لیے امتحان ایک معمول کی کاروائی ہے لیکن اس دن ان کی زندگی کا سب سے منفرد اور اہم امتحان تھا۔ انہیں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں 13 لوگوں کو قائل کرنا تھا اور انہی افسران کی کارکردگی کی بنا پر ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہونا تھا۔اس دورے میں یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر کرنا ہے یا نہیں۔ دراصل پاکستان نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پر عمل کرلیا گیا ہے اور اس کی تصدیق کے لئے ایف اے ٹی ایف کا وفد ایف آئی اے کے دفتر کا دورہ کرنا چاہتا تھا۔پھر سائرن چنگھاڑنے شروع ہوئے اور 13 افراد پر مشتمل ممتحن، خاص گاڑیوں میں ایف آئی اے کی عمارت میں داخل ہوئے تو عملے کی سانسیں رک گئیں۔ سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ کے سربراہ عبدالقادر قمر نے ٹشو سے اپنے ماتھے پر چمکتے پسینے کو صاف کیا تو اپنی پراعتمادی کے لئے مشہور سمیرا اعظم بھی ایک لمحہ کو گڑبڑا گئیں۔یورپی، امریکی اور ایشیائی افراد پر مشتمل یہ 13 رکنی وفد عمارت میں داخل ہوا اور جلد ہی ایف آئی اے کے عملے سے گھل مل گیا۔ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم جس نے کچھ لمحوں کی بریفنگ لے کر کوئی آدھا گھنٹہ سوالات کرنے تھے وہ ایف آئی اے کے اہلکاروں سے اتنا متاثر ہوئے کہ سوال و جواب قریبا گھنٹہ بھر جاری رہے۔ سوال و جواب کے دوران ہی افسران کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ وفد کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔یہ واجد ضیا، احسان صادق، عبدالقادر قمر، بریگیڈیئر سلیمان، سمیرا اعظم، نازیہ عمبرین، ایاز خان، محسن حسن بٹ، محمد طاہر رائے، خرم، انسپیکٹر شاہ رخ اور دوسرے سینکڑوں اہلکاروں کی کامیابی تھی جو گزشتہ 4 سال ان اقدامات میں مصروف رہے جن سے پاکستان پر لگے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ جیسے الزامات کا خاتمہ ہوا۔ یہ میرے اور آپ کے ہیرو ہیں، یہ پاکستان کے ہیرو ہیں۔ گرے لسٹ کا مطلب اقتصادی پابندی نہیں ہوتا لیکن گرے لسٹ میں شامل ممالک پر غیر ملکی سرمایہ کاری کا دروازہ بند ہونے لگتا ہے اور انہیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف سے قرض لینے میں مشکل ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اس کا مطلب مشکلات میں اضافہ تھا۔پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا مطالبہ پاکستان کے دیرینہ اتحادی امریکہ کی جانب سے آیا تھا۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کے لیے انکم ٹیکس، نیب، ایف آئی اے، اے این ایف اور کسٹمز کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی۔ فوج کی جانب سے ڈی جی ایم او اس ٹیم کا حصہ تھے۔ اس ٹیم کی سربراہی پہلے نیب کو دی گئی لیکن پھر ایف آئی اے کو قیادت سونپ دی گئی۔ایف آئی اے میں واجد ضیا اور احسان صادق نے دن رات کام کرکے ایک ٹیم بنائی۔ احسان صادق بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم ونگ اس میں شامل تھے۔ وہ چونکہ منی لانڈرنگ پر کام کرچکے تھے اور بیرونِ ملک سے بھی تربیت یافتہ تھے لہذا سٹریجک سطح پر انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے تمام طریقہ کار وضع کرنا اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ان کا اہم کارنامہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جہاں غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کو قانون کے شکنجے میں لایا گیا وہیں ان غیر ملکی تنظیموں کے لیے بھی سخت طریقہ کار وضع کردیا گیا جو ملکی سالمیت کے خلاف مبینہ طور پر کام کر رہی تھیں۔ احسان صادق نے بڑی محنت سے ٹیم تیار کی اور بڑی جانفشانی سے اس کی تربیت کی۔ ان کی ٹیم میں سمیرا اعظم، نازیہ عمبرین، ایاز خان، خرم اور انسپیکٹر شاہ رخ شامل تھے۔ 4 سالوں میں کئی افسران تبدیل ہوتے رہے اور نئے شامل ہوتے رہے۔ ان تمام گمنام ہیروز نے اپنی ذات سے بالا تر ہوکر دن رات کام کیا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا جشن مناتے ہوئے ان گمنام ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا نہ بھولیں۔(بشکریہ ڈان، تحریر:عاطف خان، ترجمہ: ابوالحسن امام)