قوانین‘ قواعد اور انسانی اسمگلنگ

دنیا کے ہر ملک کو کسی نہ کسی صورت ’انسانی سمگلنگ‘ کا سامنا ہے اور قریب ہر ملک ہی اِس متاثر دکھائی دیتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این او ڈی سی‘ نے انسانی سمگلنگ کو ”دنیا کے سب سے شرمناک جرائم“ میں سے ایک کے طور پر بیان کیا ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے لوگوں کی آزادی چھن جاتی ہے۔ ہر عمر اور تمام پس منظر کے لوگ انسانی سمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں تاہم خواتین‘ بچے‘ کمزور‘ غریب‘ تارکین وطن اور بے وطن افراد زیادہ سمگل ہوتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہے لیکن اسے عام طور پر تین اہم صورتوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ جبری مشقت‘ جبری شادی اور جبری اعضا بردی (جسمانی اعضا کاٹنا)۔ امریکی محکمہ خارجہ کی سال دوہزاربائیس سے متعلق ”ٹریفکنگ اِن پرسنز رپورٹ“ کے مطابق پاکستان میں صوبائی سطح پر انسانی سمگلنگ کے 21 ہزار 253 واقعات سامنے آئے۔ اگرچہ انسانی  سمگلنگ کے خلاف  اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں وقت کے ساتھ بہتری آئی ہے لیکن مزید کوششوں کی بہرحال ضرورت ہے۔

 انسانی سمگلنگ روکنے کے لئے  مزید موثراقدامات کی ضرورت ہے اور اِس مقصد کے لئے ایک مضبوط قانونی فریم ورک اپنانا اور لاگو کیا جانا چاہئے۔ انسانی سمگلنگ روکنے‘ دبانے اور سزا دینے کا پروٹوکول (پروٹوکول) اقوام متحدہ نے نومبر دوہزار میں بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف اپنے کنونشن (UNTOC) کے طور پر اپنایا تھا۔ پروٹوکول پہلا عالمی قانونی ضابطہ ہے اگرچہ پاکستان نے دسمبر دوہزار میں UNTOC پر دستخط کئے اور جنوری دوہزاردس میں اس کی توثیق بھی کی تاہم ملک نے ابھی تک اس پروٹوکول پر دستخط یا توثیق نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود‘ پروٹوکول کے عناصر پاکستان کے ملکی قانون میں متعارف کرائے گئے ہیں۔جون دوہزاراٹھارہ میں‘ پاکستان کی پارلیمنٹ نے انسانی سمگلنگ کی روک تھام ایکٹ 2018ء (PTPA) منظور کیا۔ اِس کا سیکشن تین انسانی اسمگلنگ کے پروٹوکول کے آرٹیکل تین اخذ ہے لیکن اِس کی خاطرخواہ تعریف نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر‘ پروٹوکول کے تحت واضح طور پر ”جنسی استحصال‘ جبری مشقت یا خدمات‘ غلامی یا اعضا کاٹنے کے مشابہ عمل کا ذکر کیا گیا۔ 

تعریف میں یہ اِس پہلو کی بھی وضاحت کی گئی کہ انسانی سمگلنگ میں ”طاقت کا غلط استعمال یا خطرے کی پوزیشن یا ادائیگیوں یا فوائد کو دینا یا وصول کرنا کسی دوسرے شخص پر کنٹرول رکھنے والے شخص کی رضامندی حاصل کرنا“ شامل ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری اجزأ پاکستانی قانون کے تحت انسانی سمگلنگ کی تعریف کا حصہ نہیں ہیں۔ عالمی قانون کہتا ہے کہ ”کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے شخص کو ملازمت دیتا ہے یا اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتا ہے‘ یا نقل و حرکت کے اسباب و سہولت کاری دیتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جبری مشقت پر اکساتا یا استعمال کرتا ہے اور طاقت‘ دھوکہ دہی یا زبردستی کرتا ہے‘ وہ دراصل افراد کی سمگلنگ کے جرم کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ ’پی ٹی پی اے‘ کا سیکشن فور ’بڑھتے ہوئے حالات‘ کا تعین کرتا ہے جبکہ سیکشن نائن کے جرم کو قابل سماعت اور ناقابل ضمانت قرار دیتا ہے۔ ’پی ٹی پی اے‘ کا سیکشن گیارہ متاثرین اور گواہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرکے‘ انہیں منتقل کرنے‘ اور ان کے ناموں اور پتے کے افشا کو محدود کرکے ان کی حفاظت کرتا ہے۔

 مزید برآں‘ سیکشن بارہ گواہوں اور متاثرین کے تحفظ کے لئے عدالت کو اِن کیمرہ کاروائی کرنے‘ کاروائی کے شواہد جمع کرنے کے لئے ویڈیو لنک کے استعمال کی اجازت اور عدالتی کاروائی کے ریکارڈ کو سربمہر کرنے یا اُس تک رسائی محدود کرنے کے اختیارات بھی دیتا ہے۔سال 2020ء میں‘ وفاقی حکومت نے ’پی ٹی پی اے‘ کے سیکشن پندرہ کے تحت دیئے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قوانین بنائے۔ جن کا عنوان ’انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے قوانین 2020ء) (PTPA رولز) رکھا گیا جبکہ PTPA کا سرسری قانون پانچ صفحات سے بھی کم ضخیم ہے لیکن اِس کے قواعد اٹھاون صفحات پر محیط ہیں۔ جن میں ’متاثرین کی شناخت کے لئے رہنما اصول‘ انسانی سمگلنگ کے متاثرہ شخص کا طبی معائنہ‘ اٹھارہ سال سے کم عمر کے متاثرین کا خصوصی علاج اوردیگر طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہیں۔ ’پی ٹی پی اے‘ کے تحت جو سزا دی گئی ہے اس میں سات سال تک قید‘ دس لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں شامل ہیں۔ سمگلنگ کے جرم میں بالغ مرد شکار اور دس سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔ ان لوگوں کے لئے جن میں بالغ خواتین یا بچے متاثرین شامل ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقرر کردہ سزائیں زیادہ سخت ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ردا طاہر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)