خطرناک قوم پرستی

اٹھارہویں صدی کے آخر میں جنوبی برصغیر میں برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کرنے والے مشہور آزادی کے رہنما ٹیپو سلطان سے منسوب ایک ریلوے ایکسپریس گاڑی کا نام تبدیل کر کے ہندو حکمران خاندان کے نام پر رکھا جا رہا ہے جس نے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دور سے پہلے اور بعد میں میسور پر حکومت کی تھی۔ یہ گھٹیا حرکت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہندوتوا نظریہ اور سنگھ پریوار میں اس کے نظریات کے مطابق ہے جو بھارت کی ہم آہنگی اور تکثیری ماضی کے تمام آثار کو مٹا کر ہندوستان کی تاریخ کو دوبارہ لکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں موجودہ نظرثانی کا جنون ڈیوڈ زیونٹس کے نظریاتی ماڈل کے مطابق ہے جس میں ایک ریاست ایک جھوٹے نظریاتی بیانیے کو تقویت دینے کے لئے فرضی ماضی ایجاد کرتی ہے جو کسی بھی وجہ یا عقلیت کے لئے قابل قبول نہیں۔ ہندوستان راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ثقافتی رنگ برنگی مہم کی طرح انتہا پسندوں کی گرفت میں ہے۔ حکمراں ’بی جے پی‘ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس ہندوتوا کا سیاسی محاذ ہیں جو ’آر ایس ایس‘ کے نام سے مشہور ایک نازی نما عسکریت پسند تنظیم کے ذریعے اختلاف رائے کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ’بی جے پی‘ کی انتخابی کامیابیاں اور ہندوتوا کا بیانیہ پھیل رہا ہے۔ 79فیصد سے زائد ہندو آبادی کو 14فیصد مسلمانوں‘ 2فیصد عیسائیوں‘ 1.6فیصد سکھوں‘ 0.7 فیصد بدھ مت کے پیروکاروں‘ 0.4فیصد جین مت کے پیروکاروں اور 0.7فیصد قبائلیوں سے کیا خوف ہو سکتا ہے؟ ہندوتوا کے نظریہ ساز بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ موہن گروسوامی کے مطابق‘ ہندوستانی حکومت کے پاس ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور آلہ آباد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کے ذریعہ شروع کئے گئے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا ایجنڈا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا رویہ دلت (نچلی ذات کے) ہندوؤں سے زیادہ مختلف نہیں ہے جنہیں اپنی ثقافتی شناخت کو ہندومت میں ضم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) کو ’آر ایس ایس‘ کے ایک جزو کے طور پر آگے بڑھاتے ہوئے فرقہ واریت کو مسلم کمیونٹی میں تقسیم کے بیج بونے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کرسٹوف جعفریلوٹ کے مطابق دلتوں کے ساتھ گائے سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہے‘ انہیں بھی دہشت گردی اور لالچ کے ذریعے ’آر ایس ایس‘ کارکن (نظریاتی اور فوجی تربیتی کیمپوں) کا حصہ بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ’آر ایس ایس‘ کے رہنما جیسا کہ ’آچاریہ گری راج کشور‘ نے کہا ہے کہ ”ایک گائے کی جان پانچ دلتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔“ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوتوا دیگر تمام ثقافتوں اور عقائد کو کس طرح نیچا دیکھتی ہے! جب مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے تب سال 2002ء میں مسلم کش فسادات ہوئے اور دو ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور اُن کی املاک کو جلایا گیا۔ اِسی طرح ہندوستان میں ’آر ایس ایس‘ کے انتہا پسندوں کی طرف سے لیسسٹر (برطانیہ) میں ہندو مسلم فسادات کے اشتعال انگیز الزامات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔ ’لیسٹر‘ نامی برطانوی شہر کے میئر پیٹر سولسبی کے مطابق سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز ٹوئٹس نے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو ہوا دی۔ دو لاکھ گمراہ کن جیو ٹیگ شدہ سوشل میڈیا ٹوئٹس میں سے 80فیصد کا سراغ بھارت میں پایا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلمانوں کی طرف سے ہندو سائٹس پر حملہ کیا جا رہا ہے۔’لیسسٹر‘ میں آن لائن صارفین نے ماضی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بھارت سے جعلی خبروں اور غلط معلومات پر مبنی مہمات کی شکایت کی تھی جو کہ ایک پرامن شہر میں بدامنی کو ہوا دے رہی ہے۔ بھارت کی جانب سے سوشل میڈیا کو اقلیتوں کے خلاف ہندوتوا کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ برطانیہ میں ’آر ایس ایس‘ کی شاخ 1966ء میں ’ہندو سویم سیوک سنگھ‘ کے نام سے شروع ہوئی اب اس کی ساٹھ شاخیں ہیں جو نفرت انگیز بیانیے کو پھیلا رہی ہیں۔ امریکہ کے اخبار ’ایل اے ٹائمز‘ نے اطلاع دی ہے کہ ہندوتوا تنظیمیں امریکہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں۔ ترکی کے نشریاتی ادارے ’ٹی آر ٹی ورلڈ‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہندوتوا گروپوں کی رسائی اور اثر و رسوخ کو بڑھایا جا رہا ہے۔ ہندو اپنے مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی کو امریکہ‘ برطانیہ‘ افریقہ اور آسٹریلیا میں پھیلا رہے ہیں اور ترقی یافتہ دنیا میں اِس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ بھارت جسے مغربی ممالک اور امریکہ کی جانب سے پسندیدہ تجارتی شراکت دار ملک کا درجہ دیا گیا ہے لیکن یہی بھارت انتہا پسندی کو بڑھاوا دیکر دنیا کو خطرات سے دوچار کئے ہوئے ہے وقت ہے کہ دنیا بھارت کی انتہاپسند فطرت سے آگاہ ہو‘ بیدار ہو اور ہندو انتہاپسندی کے خلاف متحد ہو کر اِس کا قلع قمع کرے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)