سال 2013ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے شروع کیا گیا‘ اربوں ڈالر مالیت کا ”چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا تصور اور ڈیزائن چینی صدر شی جن پنگ کے دستخط شدہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے فلیگ شپ منصوبے کا حصہ ہے جو بنیادی طور پر بہتر علاقائی اور اقتصادی انضمام کے ذریعے پاکستان کے اہم جیو اسٹریٹجک محل وقوع کو جیو اکنامک فوائد میں استعمال کرنے کے مقصد سے بنایا گیا‘ سی پیک میں فزیکل اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی سے لے کر بجلی کی پیداوار اور خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے صنعت کاری کے فروغ تک کے منصوبے شامل ہیں۔ چین اور پاکستان کی حکومتوں کے نمائندوں کے درمیان وسیع تحقیق اور مشاورت اور غور و خوض کے بعد‘ ابتدائی مرحلے (2018ء)‘ قلیل مدتی منصوبے (2020ء) درمیانی مدت کے مرحلے (2025ء) پر عمل درآمد جاری ہے جبکہ طویل مدتی مرحلہ (2030ء) تک مکمل ہوگا۔ سال دوہزارتیرہ میں ملک کو درپیش توانائی بحران کے پیش نظر‘ جس نے معیشت پر جی ڈی پی کا تقریباً دو فیصد لاگت کا تخمینہ لگایا تھا۔ آئی پی پی پالیسی کے تحت بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں کو سی پیک کے ابتدائی مرحلے میں رکھا گیا۔
ابتدائی مرحلے کے اختتام تک‘ پانچ ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پہلے ہی قومی گرڈ میں شامل کی جا چکی تھی جبکہ سی پیک کے زیراہتمام تقریباً پچیس سو میگاواٹ کی مجموعی صلاحیت کے حامل منصوبوں کی ایک اور کھیپ تکمیل کے قریب ہے۔ اسی طرح دوہزاراٹھارہ کے آخر تک بنیادی ڈھانچے کے چھ بڑے منصوبے یا تو مکمل ہو چکے یا تکمیل کے قریب ہیں‘ جن میں ملتان سکھر موٹروے (292کلومیٹر)‘ KKHکا حویلیاں ٹھاکوٹ سیکشن (120کلومیٹر)‘ ہوشاب سوراب روڈ N-85 شامل ہیں۔ پی ایس ڈی پی کے ذریعے فنانس کیا گیا، ’ڈی آئی خان‘ موٹروے (297کلومیٹر‘ پی ایس ڈی پی کے ذریعے فنانس کیا گیا) اورنج لائن میٹرو ٹرین (27کلومیٹر) اور خنجراب سے راولپنڈی (820 کلومیٹر) آپٹیکل فائبر منصوبے شامل ہیں۔ مکمل شدہ اور زیر تعمیر منصوبوں میں کی گئی کل سرمایہ کاری تقریباً 22 سے 23 ارب ڈالر ہے۔ چینی سرمایہ کاری کی اس بڑے پیمانے پر آمد نے ایک طرف معاشی ترقی کو فروغ دیا۔
بجلی‘ ڈیجیٹل اور فزیکل انفراسٹرکچر میں اہم خلا کو پر کرنے میں مدد ملی اور دوسری طرف پاکستان میں دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی کو ابھارا گیا تاہم بدقسمتی سے جس طرح مسلم لیگ (نواز) کی حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے نکال کر جامع ترقی کی راہ پر گامزن کیا‘ اسی طرح ملک میں سیاسی عدم استحکام کی لہر دوڑ گئی‘ جس کی وجہ سے بمشکل حاصل ہونے والے معاشی استحکام کو خطرہ لاحق ہو گیا۔اقتدار میں آنے کے بعد سے‘ موجودہ حکومت نے نہ صرف سی پیک کو بحال کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں بلکہ چین کے ساتھ تعاون کے دائرہ کار کو بھی وسیع کیا ہے تاکہ دیگر اہم شعبوں جیسے آبی وسائل کے انتظام اور موسمیاتی تبدیلی‘ کان کنی‘ زراعت اور کاروبار سے کاروبار جیسے شعبوں میں چین کی سرمایہ کاری شامل ہو۔ اِس سلسلے میں مشترکہ تعاون کمیٹی کے گیارہویں اجلاس میں‘ دونوں حکومتوں (چین و پاکستان) نے اصولی طور پر سی پیک کو بحال کرنے‘ تعاون کے شعبوں کی وسعت اور حکومت سے حکومت کے تعاون‘ کاروبار سے کاروباری روابط کے ذریعے رکھی گئی مضبوط بنیاد کو بڑھانے اور اِن کے تحت منصوبوں کی تکمیل پر اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے چین کے آئندہ سرکاری دورے میں کچھ بڑے اقدامات کے باضابطہ اعلانات کئے جانے کا امکان بھی ہے۔ ہم ’ایم ایل ون‘ اور ’کراچی سرکلر ریلوے‘ کے سٹریٹجک بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لئے باضابطہ فنانسنگ معاہدوں پر دستخط کی توقع کر رہے ہیں۔ اسی طرح حکومت پاکستان دس ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کی پیداوار کے لئے حال ہی میں اعلان کردہ اقدام کے ذریعے پیش کردہ سرمایہ کاری کے مواقع میں حصہ لینے کے لئے چینی سرمایہ کاروں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ مزید برآں‘ دونوں حکومتوں نے چینی کمپنیوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان ادارہ جاتی روابط کی ترقی کے ذریعے صنعتی شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ آخر میں‘ حکومت پاکستان نے بھی پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی حفاظت حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
سی پیک بحال کرنے اور تعاون کے شعبوں کو بڑھانے کے علاؤہ‘ حکومت نے گوادر کے رہائشیوں کو درپیش حقیقی سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی کوششیں کی گئی ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم ذاتی طور پر گوادر کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے بلوچستان کے پچاس لاکھ اضافی گھرانوں کو بھی ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے مستفید کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جن میں گوادر ضلع کی پوری غریب آبادی بھی شامل ہے۔ اسی طرح گہرے سمندر میں ٹرولنگ کے حوالے سے گوادر کے ماہی گیروں کے دیرینہ جائز خدشات دور کرنے کے لئے بھی حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔
چین کی حکومت نے گوادر کے لوگوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے 20 کروڑ (200 ملین) گرانٹ سے چلنے والے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مذکورہ بالا اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سی پیک سے مساوی ترقی کو فروغ ملے گا اور مقامی لوگوں کے لئے وسیع تر فوائد پیدا ہوں گے۔ ’سی پیک‘ جیسے پیچیدہ اور تزویراتی منصوبوں کے انتظام کے لئے نہ صرف ایک اچھی طرح سے مربوط‘ پختہ اور شفاف نقطہ نظر بلکہ انتظامی اور پالیسی کے تسلسل اور سیاسی استحکام کی بھی ضرورت ہے جس کے لئے موجودہ حکومت پرعزم ہے۔ (مضمون نگار وفاقی وزیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)