لاوارث شہری

کیا آپ چاچا زمان کو جانتے ہیں جس نے بیس اگست کی رات آنے والے سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو دیا؟ یقینا کوئی بھی اُن کے بارے میں نہیں جانتا کیونکہ وہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ’ڈیرہ اسماعیل خان‘ کی تحصیل درابن کلاں کے ایک بہت چھوٹے گاؤں میں رہتا ہے۔ وہ اور ان جیسے ہزاروں لوگ حالیہ سیلاب کا شکار ہوئے جو سرائیکی وسیب‘ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں کی معیشت و معاشرت کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ ماہرین موسمیات کے مطابق حالیہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آیا‘ جس کا خمیازہ دنیا کے کئی ممالک بھگت رہے ہیں لیکن اِن موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید طور پر متاثر ہونے والا پاکستان ’پہلا ملک‘ ہے۔ طوفانی سیلاب نے پاکستان کی تاریخ کے تمام گزشتہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ اِس قدر شدید پیمانے پر سیلاب نے کبھی بھی اِس قدر تباہی نہیں پھیلائی تھی۔ کوہ سلیمان اور دریائے سندھ کے درمیان دمان کے علاقے میں ہزاروں خاندان اپنے گھر بار‘ مال مویشی‘ فصلوں اور اناج کے ذخیرہ سے محروم ہو گئے۔ بہت سے خاندان ہنوز ’لاپتہ افراد‘ کی تلاش کر رہے ہیں‘ جو شدید سیلاب کی وجہ سے بچھڑ گئے تھے۔ جب ایسی تباہی نے لاکھوں پاکستانیوں کو اپنی لپیٹ میں لیا تو حکومت اور ذرائع ابلاغ کہیں نظر نہیں آئے۔ انتہائی عجلت کے اس معاملے کی ذرائع ابلاغ میں بھی بہت کم توجہ (کوریج) دی گئی۔ سرکاری حکام کے پاس وسائل کم اور سیلاب متاثرین کی تعداد زیادہ رہی۔ آج بھی سیلاب متاثرین کی امداد اور اُن کی بحالی کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ نجی ادارے اور تنظیمیں‘ ویلفیئر ٹرسٹ اور انفرادی حیثیت میں دردمند دل رکھنے والے افراد صرف اور صرف ’رضائے الٰہی‘ کیلئے کام کر رہے ہیں‘ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں‘ رابطہ پل ٹوٹ چکے ہیں اور زیادہ تر دیہات میں تو پہلے ہی سے سڑکیں نہیں تھیں جو رہے سہے راستے تھے اُن کا نام و نشان بھی مٹ گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ کئی اضلاع اور دیہات ایسے بھی ہیں جہاں ضرورت مندوں تک رسائی ناممکن حد تک دشوار ہے۔موسلادھار بارشیں اور اِن سے آنے والے سیلاب ’آب و ہوا‘ کے بنائے ہوئے قدرتی نظام میں گڑبڑ کی وجہ سے ہیں۔ موسمیاتی آفات درحقیقت یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ہم انسانوں نے زمین پر رہنے کا ہنر نہیں سیکھا اور یہی وجہ ہے کہ زمین کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہے اور ایسے لوگوں کا شمار ہر دن بڑھ رہا ہے جو غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جن خاندانوں کے گھر تباہ ہو چکے ہیں ان کیلئے کھانا پکانا ممکن نہیں رہا۔ اس لئے ان کیلئے خشک خوراک کی ضرورت ہے۔ رضاکار ٹیمیں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں خشک راشن تقسیم کر رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے ’سرائیکی وسیب‘ کے لوگوں میں مہمان نوازی کا جذبہ زندہ ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آس پاس کے دیہات جو سیلاب سے نسبتاً محفوظ ہیں وہاں کے رہنے والے اپنے سیلاب متاثرین بہن بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسی مثالوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُجاگر ہونا چاہئے تاکہ پاکستان اور دنیا کو معلوم ہو سکے کہ کس طرح انسانی ہمدردی اور اخوت کا رشتہ آج بھی قائم و دائم ہے۔ مقامی لوگ پکا ہوا کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ بے گھر افراد کو پناہ دی گئی ہے اور سیلاب سے متاثرہ کئی ایسے علاقے کہ جہاں حکومتی امداد کسی وجہ سے نہیں پہنچ سکی وہاں کا سارا بوجھ آس پاس کی آباد بستیوں کے مقامی افراد نے اُٹھایا اور اپنے ایثار و قربانی سے ایک روشن تاریخ (مثال) رقم کی ہے‘سیلاب صرف ایک مرتبہ کی بات نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اِن کے بار بار آنے سے متعلق پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں‘ جو ایک خوفناک حالات کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ المیہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ دیہات کے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ایسے بہت سے ادھورے کام ہیں جو گزشتہ 75 برس کی حکومتوں نے چھوڑے ہیں اور اُن میں ہر شہری و دیہی علاقے میں رہنے والے کیلئے پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہے‘ جس کی فراہمی میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ سیلابی پانی پینے سے دیہاتیوں کو ہیپاٹائٹس اور ہیضہ جیسی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ ان علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔ دیواریں اور چھتیں گرنے سے سینکڑوں شہری شدید زخمی ہوئے‘ جن میں سے اکثریت کو آج بھی طبی امداد نہیں مل رہی اور ایسے سیلاب سے متاثرہ دیہات بھی ہیں‘ جہاں تاحال طبی امداد نہیں پہنچی اور بہت سے زخمی علاج معالجے اور بحالی کیلئے مدد کے منتظر ہیں۔ اس کے علاؤہ سیلاب سے متاثرہ بے شمار بچے اور خواتین ہیں جنہیں طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ملک میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت سی حاملہ خواتین ایسی ہیں جو زندگی کی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے تکلیف کا شکار ہیں۔ کیا سیلاب متاثرین ریاست کا حصہ نہیں۔ ایک ایسی ریاست جو ملک کے مراعات یافتہ طبقات (اشرافیہ) کیلئے تو مراعات اور رعایت (سبسڈی) کا اعلان کرتی ہے اور ہر سال غیر پیداواری اور غیرانسانی ترقی پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن اُس کے پاس سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے مالی وسائل نہیں ہیں اور اُسے دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑ رہا ہے‘ جس کا خاطرخواہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے قومی سطح پر فوری اقدامات کے علاؤہ ادارہ جاتی‘ ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دستک دیئے بغیر وارد ہو چکی ہے اور یہ تشویشناک صورتحال متقاضی ہے کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی پر سنجیدگی سے نظر ثانی کی جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کیلئے مقامی کمیونٹیز اور بلدیاتی نظام کو فعال و بااختیار بنایا جائے‘ پائیدار ترقی‘ پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی اور قدرتی وسائل کا تحفظ ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور آگے بڑھنے کا واحد و محفوظ راستہ ہے۔؛ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: احتشام حسن۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)