سیلاب اور دیہی معیشت

سندھ کی آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے‘ جس میں سے باون فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں جبکہ 48فیصد دیہی علاقوں میں اور ان میں سے تقریباً 38فیصد کا ذریعہ معاش زراعت‘ مویشی‘ جنگلات اور ماہی گیری ہے۔ منظم مینوفیکچرنگ سیکٹر اور خدمات کی دیہی علاقوں میں موجودگی بہت کم ہے اور جو کچھ موجود ہے وہ بنیادی طور پر دیہی آبادی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ زراعت کا شعبہ‘ جو دیہی معیشت کا بنیادی محرک ہے‘ زمین کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل کے ناقص انتظام بالخصوص پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہا۔ زمین اور پانی کے استعمال تک رسائی میں عدم مساوات نے اوپر اور نیچے کی آمدنی میں فرق کو بڑھا دیا ہے۔ سندھ میں مطلق بے زمینی کے سب سے زیادہ واقعات‘ کرایہ داری کا سب سے زیادہ حصہ اور زمین کی ملکیت میں سب سے کم حصہ ہے۔ 1959ء سے پہلے‘ سندھ میں دولت مند زمیندار‘ جن کی ملکیت ایک سو ایکڑ سے زیادہ اراضی تھی‘ صوبے کے تمام کسانوں کا 7فیصد تھے لیکن ان کے پاس کل کاشت شدہ اراضی کا پنتالیس فیصد تھا۔ پانچ ایکڑ سے کم اراضی رکھنے والے چھوٹے کاشتکاروں کے مقابلے میں اِن کا فارم ہولڈنگ 12گنا زیادہ تھا۔ اگرچہ دوسری اور تیسری نسلوں میں تقسیم کی وجہ سے سب سے اوپر کی ملکیت والے فارم کے رقبے میں کمی آئی ہے لیکن بزرگوں کا کنٹرول بہت زیادہ ہے کیونکہ چھوٹے مالکان دیہی علاقوں میں رہنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں فی کس آمدنی شہری آبادی کا نصف ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران قومی اوسط ڈھائی فیصد کے مقابلے میں سالانہ ایک فیصد سے بھی کم کی شرح سے آمدنی میں اضافہ رک گیا ہے۔ دیہی سندھ میں منفی ترقی ہوئی جبکہ شہری سندھ میں مثبت ترقی ہوئی۔ دیہی سندھ کے غریب ترین افراد نے اس عرصے میں کسی بھی زمرے کی بدترین شرح نمو کا تجربہ کیا اور اپنی آمدنی کا تقریباً ایک فیصد حصہ کھو دیا۔ سندھ میں غربت شہری سندھ اور پاکستان کے دیگر حصوں سے کہیں زیادہ ہے۔ شہری مردوں اور دیہی عورتوں کے درمیان سماجی خلیج بہت وسیع ہے تقریباً نصف آبادی لیبر فورس کا حصہ نہیں ہے اور 72فیصد خواتین افرادی قوت سے باہر ہیں۔  دیہی سندھ میں انسانی ترقی کی سطح سب صحارا افریقہ کے بہت سے ممالک سے بدتر ہے۔ 38فیصد خواندگی کی شرح‘ 58فیصد مجموعی اندراج کا تناسب اور 62فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ شہری علاقوں کے اعداد و شمار بالترتیب 72فیصد‘ 99فیصد اور 86فیصد ہیں۔ سماجی اشارئے یا تو جمود کا شکار ہیں یا بہتر نہیں ہیں۔  شہری سندھ میں ہر ایک سو لڑکوں کے مقابلے میں‘ دیہی علاقوں میں صرف ستر لڑکیوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ سندھ میں پرائمری سکول میں داخل ہونے والے ہر ایک سو لڑکوں کے مقابلے میں‘ صوبے میں صرف 86 لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ جب کوئی اعلیٰ تعلیم کی طرف جاتا ہے اور آخر کار جاب مارکیٹ میں شرکت کرتا ہے تو یہ تفاوت مزید وسیع ہو جاتی ہے۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ گورننس کے خسارے نے سندھ میں خدمات کی فراہمی کو خسارے میں بدل دیا ہے۔سندھ کے اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں اور گزشتہ تین برس میں آئی آفات (کورونا وبا اور سیلاب) سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیں جس نے دیہی سندھ کی معیشت کو بالخصوص شدید متاثر کیا ہے اگرچہ پاکستان نے کورونا سے متعلق بہتر حکمت عملی اپنائی جس سے معاشی نقصانات کم ہوئے لیکن کوروناکی وجہ سے سپلائی لائن متاثر ہوئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور اِس سے متوسط و غریب طبقات شدید متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی معیشت میں سست روی نے برآمدی نمو کی رفتار کو مزید کم کر رکھا ہے۔ سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر کمی اور جمود کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں مالیاتی سختی کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال نے سرمایہ کاروں کی ترجیحات تبدیل کی ہیں اور ترقی پذیر ممالک سے خالص سرمائے کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں‘ کووڈ کے بعد کی مدت میں معیشت مسلسل دو سال تک چھ فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی۔ پہلے سال ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال قابو میں رہی لیکن شرح نمو اور مالیاتی محرک سے پیدا ہونے والی مجموعی طلب میں اضافہ دیگر برسوں کے مقابلے درآمدات میں اضافے کی صورت ظاہر ہوا۔ توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور شرح مبادلہ میں کمی نے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹس دونوں میں خسارہ پیدا کیا۔ سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہوگئے اور عوامی قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 80فیصد تک بڑھ گیا۔ آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے کے بارے میں سسپنس‘ سری لنکا کے متعدی اثرات‘ روس یوکرین جنگ اور اپریل دوہزاربائیس میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد سیاسی عدم استحکام‘ چھ ماہ بعد اقتصادی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی اور اس میں اضافے کا مؤجب ہے۔ فیڈ ریزرو کی شرحوں نے معیشت کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ اس طرح سندھ کی دیہی معیشت میکرو اکنامک ماحول کے لئے سازگار نہیں تھی۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا چاہئے کہ گلوبل وارمنگ اب کوئی ایسا واقعہ نہیں جو مستقبل میں اچانک رونما ہو گا بلکہ یہ ایک مستقل آفت ہے جس نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ سیلاب سے قبل موسمیاتی تبدیلی خشک سالی‘ برف پگھلنے‘ سیلاب‘ طوفانی بارشوں‘ گرمی کی لہروں اور سطح سمندر میں اضافے کی صورت ظاہر ہوئی۔ موسم کے بدلتے ہوئے طیور آنے والی دہائیوں میں مقامی اور وقتی تقسیم اور پانی کی دستیابی کو نمایاں طور پر متاثر کریں گے۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور دریاؤں کے زیادہ بوجھ سے خوراک‘ پانی اور توانائی خطرے سے دوچار ہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے جنوبی ایشیائی ممالک سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ سطح سمندر میں اضافے سے مالدیپ اور بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں مزید ایسے لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔ ہمالیائی گلیشیئرز کا کم از کم ایک تہائی حصہ صدی کے آخر تک پگھل جائے گا۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ‘ پانی‘ قلت اور توانائی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا معمول بن جائے گا۔ یہ صورتحال حکومت‘ نجی شعبے‘ معاشرے اور سیاسی قیادت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ کچھ سخت فیصلے لیں جنہیں ہم ماضی میں لینے سے ہچکچاتے رہے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)