ہائی ٹیک: تحقیق و ترقی برائے خوشحالی

تیزی سے اقتصادی ترقی کرنے والے ممالک کی بنیادی توجہ ایکو سسٹم کی صلاحیتوں کو صرف پیدا کرنے ہی پر مرکوز نہیں ہوتی بلکہ وہ جدت کے حصول کو بھی بطور ہدف مقرر کئے ہوتی ہے تاکہ ہائی ٹیک اشیاء کی تیاری اور برآمدات کے قابل ہو سکیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے اِس شعبے میں بری طرح ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات کئی دہائیوں سے تیس ارب ڈالر سے کم پر معلق ہیں جبکہ سنگاپور یا کوریا جیسی قومیں جو ہم سے بہت چھوٹی ہیں‘ اپنی برآمدات کے حوالے سے پاکستان سے دس گنا زیادہ آگے ہیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش‘ جو کہ 1971ء میں اپنے قیام کے وقت اقتصادی ترقی میں پاکستان سے بہت پیچھے تھا لیکن بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات پاکستان سے زیادہ یعنی 52 ارب ڈالر ہیں اور وہ سالانہ برآمدات کے حوالے سے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکومتیں روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے میں اس قدر الجھی ہوئی ہیں کہ انہیں دیگر شعبوں پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا اور ملک کے لئے مستقبل کی ضروریات پر توجہ مرکوز کرنے میں ناکام رہتی ہیں کہ کس طرح پاکستان کو غربت سے نکالا جائے اور ایک مضبوط اختراعی نظام قائم کیا جائے جو ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کی طرف ملک و قوم کو لے جا سکے۔ مناسب طریقے سے تیار کی گئی قومی صنعتی اور اختراعی پالیسیاں ملک کو اُبھرتے ہوئے ہائی ٹیک شعبوں میں مسابقتی فائدہ دے سکتی ہیں اور اسے انتہائی ضروری زرمبادلہ کما سکتی ہیں لیکن اس کے لئے منتخب شعبوں میں تحقیق و ترقی میں مستقل سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ اعلیٰ معیار کے انسانی سرمائے اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ مناسب پالیسی فریم ورک تیار کیا جا سکے جو نئی صنعتوں کی حوصلہ افزائی پر مبنی ہو۔ ان پالیسیوں کو خاص طور پر نجی شعبے (پرائیویٹ سیکٹر) میں تحقیق اور ترقی کو سپورٹ کرنا چاہئے۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں صنعتوں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ کی پیشکش اور سرمائے اور منڈیوں تک رسائی کے ساتھ برآمدات کے فروغ کے لئے معاون اقدامات کرنے چاہیئں۔ زیادہ سے زیادہ صنعتی ترقی کے لئے ملک کے قدرتی وسائل کا صحیح استعمال ضروری ہے جس کے لئے توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر حد تک ضروری ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے والے ممالک میں شامل ہے لیکن فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے  کوئلے کے ذخائر) نظر انداز ہیں اور فیصلہ سازوں نے کوئلے کی بجائے توانائی کی پیداوار کے لئے درآمدی تیل پر انحصار قائم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مہنگی بجلی کی پیداوار ہو رہی ہے جو عام آدمی (ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی) کی قوت خرید کو متاثر کر رہی ہے۔ بھارت اپنے قدرتی کوئلے کے ذخائر کا 55 فیصد توانائی کی پیداوار کے لئے استعمال کر رہا ہے جبکہ پاکستان صرف 7 فیصد۔ توانائی کے شعبے سے متعلق فیصلہ سازی خود غرضی پر مبنی ہے جس نے ملک و قوم کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہماری توانائی کی ضروریات کے لئے وافر اور صاف توانائی کے ذرائع جیسا کہ پانی‘ ہوا اور شمسی توانائی کا استعمال بھی انتہائی محدود ہے۔ ایک مضبوط اختراعی نظام قائم کرنے کے لئے 3 بڑے باہم جڑے ہوئے اجزأ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے کسی ملک کو دستیاب وسائل میں اہم انسانی وسائل (افرادی قوت) ہوتے ہیں اس کے بعد تعلیم‘ ثقافت اور آبادی کا شمار ہوتا ہے۔ اس کے بعد قدرتی وسائل جیسا کہ تیل و گیس اور معدنیات ہوتے ہیں۔ کسی ملک کی آب و ہوا جو زراعت کے لئے سازگار ہے‘ اس کا جغرافیائی منظر نامہ جو سیاحت کے لئے سازگار ہے لیکن اگر اُس کا نظام حکومت درست نہیں تو تمام وسائل کی موجودگی بھی فائدہ مند نہیں ہوگی۔ دیگر ضروری عوامل اس کے رہنماؤں کی دیانتداری اور تکنیکی قابلیت اور اس کے نظام عدل ہیں جو تیزی سے انصاف فراہم کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ دوسرا اہم جزو حکومتی پالیسیاں ہیں جو ملک کے پاس موجود وسائل کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے لئے ایک طاقتور وسیلے کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ ان پالیسیوں میں اعلیٰ معیار کے سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ تعلیم میں سرمایہ کاری‘ نئی اور اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز پر خصوصی توجہ کے ساتھ تحقیق و ترقی اور کمرشلائزیشن کا فروغ‘ کاروبار کے لئے آسانیاں فراہم کرتے ہوئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت‘ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال اور سازگار تجارتی پالیسیاں یکساں اہم ہوتی ہیں۔ قومی اختراعی نظام میں تیسرا اہم جزو نجی شعبے کا کردار ہے۔ نجی شعبے کی چھتری تلے کئے جانے والے تحقیقی اور ترقیاتی پروگرام علمی معیشت کی طرف منتقلی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں پاکستان کا شمار دنیا کے کمزور ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ سرکاری لیبارٹریوں میں تحقیق کے برعکس‘ نجی شعبے کے اداروں میں کئے جانے والے تحقیقی مطالعات میں مقامی مارکیٹ یا برآمدات کے لئے تجارتی طور پر قابل عمل نئی مصنوعات کی کفایت شعاری پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ جدت طرازی سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسی ملک کو ڈیزائن‘ پیداوار اور مارکیٹنگ کی سرگرمیوں کے ساتھ تحقیق و ترقی کی مؤثر ہم آہنگی درکار ہوتی ہے جو تجارتی لحاظ سے اہم منصوبوں پر توجہ مرکوز رکھے۔ یہ طرزعمل نجی اداروں میں بہترین صورت میں فعال دکھائی دیتا ہے لیکن سرکاری اداروں کی صورتحال مختلف ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نئی ٹیکنالوجیز کے حصول کے لئے تحقیق و ترقی کے شعبوں کے پچاس فیصد اخراجات نجی شعبہ ادا کرتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے جس کی بنیادی وجہ نجی شعبے کی عدم دلچسپی نہیں بلکہ قومی فیصلہ سازوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نجی شعبے کے تحقیق و ترقی سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت انتہائی اہم جدید ٹیکنالوجی مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کے لئے ہدف بنائے اور صنعتوں (نجی شعبے) کو اِس میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے ترغیبات دے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)