سال دوہزاربائیس سے موسمیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں جن کا براہ راست نشانہ پاکستان بنا ہوا ہے۔ رواں برس ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔ کئی یورپی ممالک سے زیادہ بڑا علاقہ کئی فٹ گہری ’سیلابی جھیل‘ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ آفت ’گلوبل وارمنگ‘ کا ایک ناقابل تردید نتیجہ تھا۔ ایک مبصر نے لکھا ہے کہ ”پاکستان میں پہلے بھی سیلاب آتے رہے ہیں لیکن اس پیمانے پر کبھی سیلاب نہیں آیا اور کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر تباہی نہیں ہوئی۔ کہ شمال میں بادل پھٹے ہوں اور برفانی تودوں سے اچانک بہت سا پانی دریاؤں میں آ گیا ہو۔ سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کا طویل سلسلہ ہوا ہو جس سے اچانک (فلیش) سیلاب آئے ہوں۔ دریائے سندھ کے مغرب میں سیلاب اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی سیلاب دیکھا گیا ہو تو یہ سب موسمیاتی آفات کا مجموعہ ہے۔ پاکستان میں اس سال بہار نہیں آئی۔ اپریل میں موسم بظاہر راتوں رات سرد سے گرم ہو گیا اور پھر مزید گرم ہو گیا۔ بجلی کی طلب پہلے غیر معمولی موسمی سطح تک بڑھ گئی اور پھر بجلی کی طلب تیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ کے تاریخی ریکارڈ تک پہنچ گئی۔ مون سون کی بارشیں جولائی کے وسط میں ہوئیں اور اگست کے آخر میں بادل پھٹنے سے سیلاب آئے۔ سندھ اور بلوچستان میں اوسط سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ درحقیقت سیلاب بارش کی وجہ سے تھا۔ جس نے تیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے اور تقریباً بیس لاکھ مکانات تباہ کئے ہیں۔ 80لاکھ لوگ بے گھر ہیں اور تین کروڑ تیس لاکھ شہری اِس سے متاثر ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے۔ پاکستان عالمی کاربن فٹ پرنٹ میں نہ ہونے کے برابر 0.8فیصد حصہ ڈالتا ہے لیکن ہم کرہ ارض کے دس سب سے زیادہ موسمیاتی دباؤ والے ممالک میں شامل ہیں۔ یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ پاکستان دیگر ممالک کی طرف سے ماحول دشمن گیسوں کے اخراج اور آلودگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا شکار ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم اپنے آب و ہوا کے اثرات کو صفر تک کم کر دیتے ہیں‘ تب بھی ہم گلیشیئرز کے پگھلنے‘ شدید بارشوں‘ زرعی نقصانات اور انتہائی طویل گرمی کے دورانیے کو اپنے حق میں تبدیل نہیں کر سکتے۔ اِس صورتحال میں وزیر اعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت سے نمٹنے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں جیسا کہ قابل تجدید‘ صاف اور دیسی توانائی کی طرف منتقلی موجودہ حکومت کی پہلی اور سب زیادہ بڑی ترجیح ہے کیونکہ یہ بہت سی ضروریات کو یکجا کرتی ہے۔ اہداف واضح ہیں کہ توانائی کی لاگت میں کمی‘ توانائی کی پیداواری خودمختاری اور ماحولیات کا تحفظ ممکن بنایا جائے۔روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا میں توانائی کا ایک نیا منظر نامہ سامنے آیا ہے۔ اب پاکستان میں بجلی کی تمام نئی پیداوار مقامی وسائل پر مبنی ہوگی‘ جیسا کہ سولر‘ تھر کول‘ ہائیڈل‘ نیوکلیئر اور ونڈ۔ یہ دیگر گھریلو ذرائع جیسا کہ جیو تھرمل اور فضلہ کے ذریعہ بھی مکمل ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ اہداف اقتصادی طور پر بھی حاصل کرنا ممکن ہیں۔ یکم ستمبر دوہزاربائیس کے روز‘ وزیر اعظم شریف نے دس ہزار میگاواٹ کے سولر منصوبے کا اعلان کیا‘ جس میں سے پہلی چھ سو میگاواٹ کی بولی چند ہفتوں میں ہو گی۔ سولر توانائی کا یہ حصہ ہزاروں دیہی گرڈ پر مبنی مائیکرو سولر پلانٹس کے قیام سے جڑا ہوا ہے جو جلد ہی بولی کے لئے پیش کئے جائیں گے اور اِس حکمت عملی کے تحت وفاقی حکومت کی ملکیت والی عمارتوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کیا جائے گا۔ داسو اور دیامر بھاشا کے دو بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹس کے ساتھ نیلم جہلم جیسے کئی درمیانے درجے کے ہائیڈل پراجیکٹس سے بھی اگلے چند برس میں ساڑھے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی جبکہ دس ہزار میگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے حاصل کر کے ملکی ضرورت کو پورا کیا جائے گا۔ سندھ میں ونڈ کوریڈور قابل بھروسہ بجلی فراہم کر رہا ہے اور آنے والے ہفتوں میں ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا جائے گا۔ سولر ہائیڈل ونڈ پراجیکٹس جو فی الحال زیر تعمیر ہیں اور کچھ تکمیل کے قریب ہیں‘ سال 2030ء تک ہمارے انرجی مکس میں ساٹھ فیصد قابل تجدید ذرائع کا اضافہ کریں گے جو پاکستان کا تحفظ ماحول کی کوششوں کا حصہ ہے اور پاکستان اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری توجہ سے سرانجام دے رہا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں سے حاصل ہونے والی بجلی قیمت میں کم ہوگی جس سے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ بھی پورا ہوگا اپور اِس سے ماحول کا تحفظ بھی ممکن ہوگا یعنی ایک تیر سے بیک وقت کئی شکار کئے جائیں گے۔ پاکستان نے ماحولیاتی تحفظ کو زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے اور اِس سلسلے میں اپنے وسائل سے بڑھ کر کوششیں شروع کر رکھی ہیں لیکن جب ہم ماحول کے تحفظ کی کوششوں کی بات کرتے ہیں تو اِس سے متعلق عوام کے طرز عمل میں بھی تبدیلی ہونی چاہئے جو فی الوقت بہت سست ہے۔ حکومت ایڈوانسڈ میٹرنگ انفراسٹرکچر اور خاص طور پر موٹر سائیکلوں اور تین پہیوں والی گاڑیوں کو الیکٹرانک گاڑیوں میں تبدیل کرنے کے منصوبوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ الیکٹرک وہیکلز متعارف اور استعمال ہونے سے پاکستان کا پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور اندازہ ہے کہ اِس سے پاکستان کے ایندھن کی کھپت نصف تک کم ہو جائے گی جو نہ صرف تحفظ ماحول کے نکتہئ نظر سے اچھا ہے بلکہ اِس سے ’سرکاری خزانے‘ پر بوجھ بھی کم ہو گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت توانائی کے تحفظ کے لئے برقی آلات اور دیگر متعلقہ ضروریات کا بھی جائزہ لے رہی ہے تاکہ بجلی کی بچت کی جا سکے اور اِسی طرح گیس و پیٹرولیم کی بچت کے لئے اقدامات و اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں۔پاکستان کا جغرافیہ اِسے موسمیاتی تبدیلیوں کے لئے انتہائی خطرناک بناتا ہے اور مشکل یہ ہے کہ ہم اپنا جغرافیہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ پاکستان تن تنہا دنیا میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو درست نہیں کر سکتا اور نہ ہی اکیلا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی لا سکتاہے تاکہ دنیا میں بڑھنے والی موسمی حرارت کو اعتدال پر لایا جا سکے۔ یہی بات وزیر اعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے COP27 اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہی کہ ”عالمی برادری کو کرہئ ارض کی بقا کے لئے مشترکہ لائحہ عمل (چارٹر) بنانے کے لئے اکٹھا ہونا چاہئے اور ہمیں ہر قیمت پر اِس کوشش میں کامیاب ہونے کا عہد بھی کرنا چاہئے۔“ پاکستان کی آنے والی نسلوں کے لئے معاشی ترقی کو تقویت دینے اور صاف ستھری و اقتصادی توانائی فراہم کرنے کے لئے موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں سے زیادہ پرعزم اور فعال ہے۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام