سندھ: سیلاب اور دیہی معیشت

حالیہ سیلاب سے سندھ اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھیلے ہوئی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق بلوچستان سے آنیوالے سیلاب سے 120ایم اے ایف سیلابی پانی سندھ میں داخل ہوا یہ پانی کی اِس قدر بڑی مقدار تھی کہ اگر اِسے ذخیرہ کرنے کا بندوبست موجود ہوتا تو ایک سے زیادہ تربیلا ڈیموں کی گنجائش کے برابر پانی محفوظ ہو چکا ہوتا اور اِس قدر بڑے علاقے اور بڑے پیمانے پر تباہی بھی نہ ہوتی‘ناکارہ یا غیرموجود نکاسی آب کے نظام کی وجہ سے بھی سیلاب کی تباہ کاریاں زیادہ ہوئی ہیں‘ اب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آئندہ گندم کی کاشت بھی مشکل دکھائی دے رہی ہے مجموعی طور پر سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا جو ملک کی مجموعی خام پیداوار کا 10فیصد نقصان ہے‘ ورلڈ بینک کی تازہ ترین تشخیص کا تخمینہ ہے کہ کل نقصانات 14.9 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور کل اقتصادی نقصان تقریباً 15.2بلین ڈالر ہے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے کم از کم 16 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف موجودہ سیلاب ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے مستقبل قریب میں بھی موسمیاتی تبدیلیاں نقصانات کا باعث بنیں گی جن کیلئے تیاری و ذہنی طور پر آمادگی ضروری ہے حالیہ سیلاب سے ہاؤسنگ‘ زراعت مال مویشیوں‘ ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں کو مجموعی طور پر 12 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے اور سندھ حالیہ سیلاب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جس میں کل نقصانات کا تخمینہ 70فیصد لگایا گیا ہے سندھ کے بعد زیادہ متاثرہ صوبے بالترتیب بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور پنجاب ہیں سیلاب سے متاثرہ کئی علاقوں میں سیلابی پانی اب بھی کھڑا ہے اور اِس آلودہ پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں جس کی وجہ سے 80لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد کو اب صحت کے بحران کا سامنا ہے پی ڈی این اے ہیومن امپیکٹ اسسمنٹ کے مطابق ”سندھ میں غربت کی شرح 9فیصد تک بڑھ سکتی ہے‘ جس سے ممکنہ طور پر مزید پچاس لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا سکتے ہیں سندھ میں کثیر جہتی غربت ممکنہ طور پر 10فیصد تک بڑھی ہے‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اضافی بارہ لاکھ گھرانے غربت کا شکار ہو جائیں گے۔ سیلاب کے براہ راست اثر کے طور پر جی ڈی پی میں نقصان مالی سال 2.2فیصد ہونیکا امکان ہے زرعی شعبے کی جی ڈی پی 0.9فیصد سے زیادہ سکڑنے کا امکان ہے زراعت میں ہونیوالے نقصانات صنعت‘ بیرونی تجارت اور خدمات کے شعبوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے متاثرہ اضلاع میں قومی اوسط کے مقابلے زراعت میں روزگار کا تناسب زیادہ ہے۔ اسکے نتیجے میں ملازمت کے نقصانات نسبتاً زیادہ ہونگے سندھ میں تقریباً 82لاکھ لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انکی تعداد میں مزید تیس لاکھ تک اضافے کا امکان ہے‘ سیلاب سے معاشرت و معاش پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں گھریلو بہبود پر اثر کم از کم چار طریقوں سے آئیگا فصل کی تباہی‘ مال مویشیوں کی ہلاکت یا کاروبار کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے گھریلو آمدنی اور روزگار (معاش) کا نقصان ہوگا دوم اثاثوں کا نقصان‘ بشمول مکانات‘ مال مویشی‘ پیداواری سامان اور گھریلو پائیدار اشیاء کے نقصانات ہوئے ہیں سوم خوراک کی کمی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ‘ غذائی اجناس کے ضائع ہونے اور ناقص فصلوں کی وجہ سے بھی نقصانات ہوئے ہیں اور چہارم انسانی سرمائے کا نقصان‘ بیماریاں پھیلنے اور خوراک کی قلت جیسے اہم ترین خطرات‘ تعلیمی اداروں کی طویل بندش سے ہونیوالے نقصانات بھی غیرمعمولی ہیں جب ہم گھریلو آمدنی کے نقصان‘ اثاثے‘ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور بیماریوں کے پھیلنے کی بات کرتے ہیں تو اِس سے سب سے زیادہ آمدنی کے لحاظ سے کمزور افراد پر مشتمل گروہ متاثر ہوتا ہے سندھ کی دیہی خواتین‘ شہری مردوں کے مقابلے میں پہلے ہی شدید معاشی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں اپنی روزی روٹی‘ خاص طور پر زراعت اور مویشیوں سے وابستہ خواتین کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے‘ سیلاب سے متاثر ہونے والوں میں سے اڑتالیس فیصد خواتین کھیتی باڑی‘ مال مویشی پالنے‘ فصلوں کی کٹائی اور ایندھن کی لکڑی جمع کرنے سے وابستہ تھیں جب تباہ کن واقعات رونما ہوتے ہیں تو خواتین کی ملازمت اور آمدنی نسبتاً زیادہ متاثر ہوتی ہے کیونکہ انہیں معاش کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کیلئے کافی امداد نہیں ملتی دیہی علاقوں میں مہنگائی‘ جو پہلے ہی جنوری دوہزاربائیس میں 4.8 فیصد سے بڑھ کر جولائی میں  38فیصد ہو گئی ہے‘ خواتین پر اِس کا اثر زیادہ ہے کیونکہ ان کی روزی روٹی تباہ ہو گئی ہے اور انہیں بازار سے کھانا خریدنا پڑ رہا ہے انٹرنیشنل سینٹر فار دی انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویژن کے محققین کے ذریعہ کئے گئے ایک تازہ ترین سیٹلائٹ پر مبنی جائزے میں پیش گوئی کی ہے کہ سیلابی پانی سے سندھ کی کپاس کی فصل میں 88فیصد‘ چاول کی 80فیصد‘ گنے کی فصل میں 61فیصد کمی کا امکان ہے۔ صوبہ سندھ میں روئی کی 20لاکھ گانٹھیں تباہ ہوئی ہیں صرف روئی کی فصل کے نقصان کا تخمینہ ”تین ارب ڈالر“ لگایا گیا ہے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی چھوٹی اور بڑی فصلیں متاثر ہونے کے علاؤہ مویشیوں کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے متعدی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور کھیتی باڑی کے وسیع و عریض علاقوں میں پانی بھرا ہوا ہے اور خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے‘جہاں بنیادی خوراک‘ فصلوں کی پیداوار‘ بجلی کی پیداوار اور پانی کی کمی کا خدشہ ہو وہاں اسقدر آبادی کی ضروریات کا بندوبست کرنا یقینا آسان نہیں ہوگا بڑھتی ہوئی آبادی کی مجموعی خوراک کی طلب پچاس فیصد تک بڑھنا ایک غیرمعمولی اضافہ ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ جنگلات کی کٹائی کے بغیر مستقبل کی زمین اور پانی کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے جبکہ مزید رقبہ کو جنگلات کے نیچے لایا جائے اور موسمیاتی خطرات کو موافقت اور کم کیا جائے؟ معاش کا بندوبست اور غربت میں کمی پاکستان کو درپیش مسائل ہیں۔ پانی کی دستیابی انتہائی دباؤ کی سطح تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ بڑھتی ہوئی آمدنی اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے گوشت‘ دودھ اور مرغی کی مانگ میں پچاس فیصد اضافہ ہو جائے گا مستقبل کے لئے غذائی تحفظ کو یقینی و ممکن بنانے کیلئے قومی سطح پر سوچ بچار کا آغاز کیا جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عشرت حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)