آب و ہوا کی حفاظت

ماحولیاتی مسائل صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ اِن مسائل میں سے ایک جس نے امریکہ کے نوجوانوں کو وسط مدتی انتخابات میں غیرمعمولی تعداد میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا ہے اور رائے عامہ کا جھکاؤ ڈیموکریٹک کی طرف ہوا ہے کیونکہ دنیا بھر میں غیراعلانیہ ”موسمیاتی ایمرجنسی“ نافذ ہے۔ امریکہ  ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کئے گئے ایک جائزے (حالیہ سروے) سے معلوم ہوا ہے کہ نوجوانوں کی رائے ”ڈیموکریٹس“ سے متعلق مختلف مسائل پر الگ الگ ہے۔ دس میں سے سات فیصد امریکی نوجوان جو کہ کل آبادی کا 72 فیصد ہیں‘ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اگر تحفظ ماحول کی عالمی کوششوں میں خاطرخواہ سنجیدگی سے حصہ نہیں لے رہا تو درحقیقت یہ دیگر ممالک کے حقوق پر حملہ ہو رہا ہے اور 59 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ان کے اپنے حقوق پر بھی حملہ ہو رہا ہے۔ امریکی نوجوانوں کے قومی و عالمی مسائل کے حوالے سے یہ جذبات انتہائی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ بہت سے مبصرین کسی بھی موسمیاتی آفت کو روکنے اور صدر جو بائیڈن کو بیس سال میں وسط مدت میں سب سے کامیاب صدر کے طور پر اُبھرنے میں مدد کرنے کا سہرا ’جنرل زیڈ‘ کے نام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ تناسب اپنی جگہ غورطلب ہے کہ تریسٹھ فیصد امریکی نوجوانوں نے ڈیموکریٹس کو ووٹ دیا جبکہ صرف پینتیس فیصد نے ری پبلکنز کو ووٹ دیا۔ اس کے علاؤہ‘ ایک اور جائزے میں 75فیصد نوجوانوں نے کہا کہ وہ کانگریس کے امیدوار کی حمایت کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں جو ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کے بارے میں زیادہ دردمندانہ مؤقف رکھتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ دنیا نے توانائی کی ضرورت و طلب کے ساتھ اِس کے ماحول دوست ہونے کی اہمیت کو بھی سمجھ لیا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے افراط زر میں کمی کے ایکٹ کے ماحولیاتی مضمرات کے بارے میں امریکیوں میں تشویش پائی جاتی ہے جس کا اظہار وہ مختلف مواقعوں پر مختلف انداز سے کرتے ہیں۔ حالیہ وسط مدتی انتخابات کے موقع پر 69فیصد امریکی نوجوان ووٹروں نے کہا کہ وہ ملک کے لئے ماحولیاتی فیصلوں کی اہمیت کو زیادہ ضروری محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ صدر جو بائیڈن کے سرسبز توانائی کے وعدوں کی حقیقت کے بارے میں جانتے ہیں۔ امریکی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیوں کو پسند بھی کرتے ہیں حالانکہ وہ جو بائیڈن کو انفرادی حیثیت میں زیادہ پسند نہیں کرتے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد چوالیس فیصد ہے۔
دنیا میں جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہے وہ انسانوں کی وجہ سے ہے اور اِس ہم زمین مخلوق (انسانوں) کی وجہ سے موسمیاتی ایمرجنسی اور تباہی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کا مزید بوجھ اُٹھانے کی شاید اب دنیا میں سکت بھی نہیں رہی ہے۔ سال 1997ء اور 2012ء کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کی رائے ماحولیاتی مسائل کے بارے میں زیادہ شدید ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ملکی و عالمی سیاست میں اگر کسی ایک چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ملنی چاہئے تو وہ ماحول ہے۔ نوجوان نسل چاہتی ہے کہ سال 2050ء تک ماحول دشمن کاربن گیس کے اخراج کو کم کرتے ہوئے صفر تک لے جایا جائے اور زمین پر رہنے کے لئے اصول و قواعد وضع کئے جائیں کیونکہ انسان اِس زمین کی پرواہ نہیں کریں گے تو قدرت اِنہیں کچل کے رکھ دے گی۔ بہتری اِسی میں ہے کہ ماحول کے ساتھ دوستی کی جائے اور اِس دوستی میں کسی بھی وجہ سے خلل کی اجازت نہ دی جائے۔ ماحول دوستی کی جو لہر اور جو جذبہ آج دنیا میں پایا جاتا ہے اگر برقرار رہا تو کوئی دجہ نہیں کہ دنیا کا مستقبل پہلے سے محفوظ ہوگا اور انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے قدرتی ماحول کو جو نقصان پہنچایا ہے اُس سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی۔ بلیو شیلڈ کے ایک حالیہ سروے (جائزے) کے مطابق امریکہ میں تقریباً 75فیصد نوجوانوں نے رپورٹ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر غور کرتے ہوئے انہیں گھبراہٹ ہوتی ہے۔ وہ نفسیاتی دباؤ (ڈپریشن) کا شکار ہو جاتے ہیں اور داخلی اضطراب و تناؤ کی وجہ سے اُنہیں انسانوں کا مستقبل غیریقینی دکھائی دیتا ہے۔ نوجوانوں کے یہ احساسات اور جذبات بہت قیمتی ہیں اور انہیں پوری دنیا کے نوجوانوں میں تقسیم ہونا چاہئے کیونکہ دنیا کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگا جو ’عالمی تحریک‘ کی صورت ماحول کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ہونا چاہتے ہیں لیکن سیاسی و جغرافیائی اختلافات اور سرحدیں اُنہیں ایک ہونے سے روک رہی ہیں۔ کسی بھی قسم کی عالمی برتری رکھنے والے ممالک کو سوچنا چاہئے کہ زیادہ وسائل اکٹھا کرنے سے بہتر ہے کہ وسائل تقسیم کرکے دنیا کے ایک مشترک اور بہتر مستقبل کے لئے تگ و دو کی جائے اور ایک دنیا کے اُس تصور کو عملی شکل دی جائے جو دنیا کے بہت سارے مسائل کا حل ہے۔ ”گرین 2.0“ نامی تصور اُس کے حوالے سے کئے گئے ایک جائزے (سروے) سے پتہ چلا ہے کہ 89فیصد امریکی نوجوانوں کا ماننا ہے کہ ”موسمیاتی تبدیلیاں پہلے ہی اُن کی زندگیوں کو متاثر کئے ہوئے ہیں جبکہ 44 فیصد امریکی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے اُن کی زندگیوں پر منفی اثر ڈال ہے اور اِس سلسلے کو یہیں پر ختم ہو جانا چاہئے۔ 
موسمیاتی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ’سال 2050ء‘ کرہئ ارض کے لئے گرم ترین سال ہو گا اور اگر موسمیاتی تحفظ کی کوششوں کی کامیابی کے لئے سنجیدگی سے عملی اقدامات نہ کئے گئے تو کرہئ ارض کے درجہئ حرارت میں اضافے کی وجہ سے برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھل جائیں گے‘ جس کی وجہ سے سمندر کی سطح متوقع طور پر چار سے پانچ فٹ بلند ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو دنیا میں خشک سالی بڑھے گی۔ جنگلات میں آگ لگ جائے گی اور بڑے پیمانے پر سیلاب آئیں گے۔ کیا ایسی تباہی کا انتظار کیا جا رہا ہے؟ اگر دنیا نے اپنی روش ترک نہ کی اور اگلی 2 دہائیوں تک سالانہ اربوں ٹن کاربن کو فضا میں ڈالا جاتا رہا تو تیس برس میں آب و ہوا زہریلی اور ناقابل برداشت حد تک خطرناک ہو جائے گی‘ جو کسی بھی جاندار کے لئے ”اچھی خبر“ نہیں ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جوآن کول۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)