پانی کا انتظام پائیدار معیشت کی کلید ہے۔ورلڈ بینک نے لچکدار اور جامع زرعی تبدیلی کے منصوبے کے ایک حصے کے طور پر بیس کروڑ (دوسو ملین) ڈالر کے قرض کا وعدہ کیا ہے۔ یہ فنڈز مالی سال دوہزارتیئس اور دوہزارستائیس کے درمیان جاری کئے جائیں گے۔ منصوبے کا بنیادی مقصد زرعی علاقوں میں پانی کے انتظام اور اِس کے نظام کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہے‘ جس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کے لئے پانی تک مساوی رسائی ممکن ہو گی لیکن بیس کروڑ ڈالر کا مذکورہ فنڈ صرف صوبہ پنجاب کے لئے ہوگا جبکہ دیگر صوبوں میں بھی زراعت اور بلخصوص آبپاشی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت کو سمجھنا ہوگا کہ موسمیاتی سمارٹ ٹیکنالوجیز اور نظام اگر نہیں اپنایا جاتا تو اِس سے حالات بہتر نہیں ہوں گے بلکہ موسمی حالات میں خرابی پیدا ہوگی جو پہلے ہی غیرلچکدار ہیں۔ پنجاب پاکستان کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور ملک کی غذائی پیداوار کا ستر فیصد سے زیادہ حصہ پنجاب ہی سے آتا ہے جیسا کہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ پانی (آبپاشی) کے انتظام پر توجہ پائیدار معیشت کی کلید ہوتی ہے۔ حالیہ (سال دوہزاربائیس) کے سیلاب نے سندھ اور بلوچستان دونوں میں تباہی مچائی اور سندھ سیلاب سے نسبتاً زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل نے چاول‘ کپاس‘ ٹماٹر‘ گنے اور پیاز کی فصلوں کی تباہی کی وجہ سے صوبے میں ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کے معاشی نقصانات کو فہرست (دستاویز) کیا ہے۔ سندھ کا زرعی شعبہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اکیس سے ستائیس فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ سندھ کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے 1991ء کے قومی پانی کے معاہدے نے صوبے کو سندھ طاس آبپاشی کے نظام سے 41.55فیصد پانی دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سندھ کی آبادی تین کروڑ (تیس ملین) تھی۔ اب صوبہ سندھ کی آبادی قریب پانچ کروڑ ہے اور سندھ کو ملنے والا پانی اب اس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی نہیں رہا۔ وفاقی حکومت کو آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام صوبوں کو ملنے والے پانی کی مقدار پر نظرثانی کرنی چاہئے اور اِس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے کہ ہر صوبے کو اُس کی زرعی ضروریات کے لئے درکار پانی ملے۔ اِس مقصد کے لئے آبی ذخائر کی تعمیر ایک ناگزیر ضرورت ہیں۔ دوسری طرف قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں سندھ کا حصہ اِس لئے کم ہے کیونکہ سندھ کی دو کروڑ بیس لاکھ (بائیس ملین) آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور اِس کا انحصار و بقا زراعت پر ہے۔ ”سندھ ایگریکلچر پالیسی 2018ء“ نے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں صوبے کے وسائل کے چار فوائد کی نشاندہی کی۔ اچھی آب و ہوا‘ مقام‘ مٹی اور پانی۔ سندھ کی مٹی قدرتی طور پر جلی ہوئی ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ مٹی میں اہم معدنیات جیسے پوٹاش اور زنک کی کمی ہے‘ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسی مٹی کے نامیاتی مواد کو ’عام طور پر اچھا‘ سمجھا جا سکتا ہے۔ ان فوائد کے باوجود‘ صوبوں کی زرعی پیداوار میں سندھ کی صلاحیت سے بہت کم ہے اور اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سندھ کے لئے دیا جانے والا پانی اور اِس پانی کے انتظام کا نظام ناکارہ ہے۔ پاکستان کے محکمہئ موسمیات نے ریکارڈ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں دوہزاربائیس میں ان کی گزشتہ اوسط کے مقابلے میں پانچ سو فیصدی زیادہ بارش ہوئی۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق دریائے سندھ کے دائیں اور بائیں کناروں پر بارش کے پانی کی مجموعی مقدار سندھ میں بائیس ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) رہی جو تربیلا آبی ذخائر کی گنجائش سے چار گنا زیادہ ہے! اس غیرمعمولی طور پر زیادہ اور موسلادھار بارش کو موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے‘ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سمندروں کی گرمی کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں سطحی پانی بخارات بن جاتا ہے‘ یہ نمی سے بھری ہوا زمین پر سفر کرتی ہے اور طوفان بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں شدید بارش ہوتی ہے‘سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے یہ واضح کر دیا ہے کہ زرعی پیداوار پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدید ہیں اور سندھ میں پانی کا انتظام سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے باوجود‘ سندھ میں اب بھی پانی کی فی یونٹ فصل کی پیداوار سب سے کم ہے‘ خراب شدہ آبپاشی کے راستوں کی مرمت کرنا ضروری ہے‘موسمیاتی تبدیلی کا شعور و آگاہی رکھنے کی صورت میں اصلاحات اور بھی ضروری ہو گئی ہیں‘ پنجاب میں ’ورلڈ بینک‘ کا منصوبہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کیلئے تیار کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ اس سے صوبے کو طویل مدت میں بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ وفاقی حکومت کو یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ پنجاب میں متعارف کرائے جانے والے واٹر مینجمنٹ کے نئے منصوبوں اور تکنیکوں کا بلیو پرنٹ ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ایک شکل کے طور پر سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ شیئر کیا جائے‘ حالیہ سیلاب کے بعد‘ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کو صرف تباہ شدہ نظاموں کی مرمت کے برخلاف موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ’جدید ٹیکنالوجی‘ اپنانے پر توجہ اور وسائل مرکوز کر دینے چاہیئں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر:عروہ فرخ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام