سال ہا سال سے ہمارے اقتصادی اور مالیاتی ماہرین نے ہمیں درآمد شدہ خام مال‘ درآمد شدہ سازوسامان اور توانائی پر انحصار کرنے کی راہ دکھائی ہے اور قومی وسائل کو اِس انداز سے ترقی نہیں دی گئی جس میں درآمدات پر اِنحصار کم کیا جاتا اور نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ آج پاکستان اپنی ضروریات کے لئے درآمدات کی ادائیگی‘ اپنی آمدنی سے کرنے کے قابل نہیں اور ہمیں قرض لے کر ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنا پڑ رہا ہے جو ایک مہنگا اور غیرپائیدار عمل ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی بھی اُن اسباب میں شامل ہے جس کی وجہ سے قومی خودانحصاری کے اہداف حاصل نہیں ہو رہے اور جو خوراک اور توانائی کے عدم تحفظ اور غربت میں اضافہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال حالیہ سیلاب کی وجہ سے مزید خراب دکھائی دے رہی ہے۔ تخمینہ ہے کہ حالیہ سیلاب سے مجموعی طورپر 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کی کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ (نومبر 2022ء) میں بیان کردہ تخمینہ جات کے مطابق صرف موسمیاتی واقعات سے پاکستان کو سال 2050ء تک اپنی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کا کم از کم اٹھارہ سے اٹھائیس فیصد سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں پر خرچ کرنا پڑے گا اور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں قومی معاشیات کو درست کرنے کے لئے قومی سیاست کے اسلوب پر غور کیا جائے‘ جو عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان ایک کمزور‘ کم ترقی یافتہ اور کم آمدنی والا ملک ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کی برائے نام جی ڈی پی ہے۔ (سال دوہزاراکیس کے دوران) انڈونیشیا کی جی ڈی پی 1186 ارب ڈالر رہی جو دنیا کی سولہویں بڑی معیشت کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے)۔ اِسی طرح نائیجریا کی جی ڈی پی 440.8 ارب ڈالر رہی جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت 346ارب ڈالر ہے اور مذکورہ دو ممالک (انڈونیشیا اور نائیجریا) کے مقابلے پاکستان کی اوسطاً فی کس آمدنی 1537 ڈالر ہے جبکہ انڈونیشیا میں فی کس آمدنی 4 ہزار 291 ڈالر اور نائیجریا میں 2 ہزار 85 ڈالر ہے۔ اگر عام پاکستان کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کی معاشی مارکیٹ کی پیچیدگیاں‘ کرنسی کا اُتار چڑھاؤ‘ افراط زر یا قومی مالیاتی پالیسیاں ایک غیر متعلقہ موضوع ہے۔ ایک عام پاکستانی کو اپنی روزمرہ پر نظر رکھنی ہے جس سے اُس کی زندگی متاثر دکھائی دے رہی ہے چاہے یہ ہماری گھریلو ہو یا قومی معیشت‘ ہمیں اپنی مجموعی خوشحالی بہتر بنانے کے لئے آمدنی میں اضافہ کرنا چاہئے اور یہی وہ محرک ہے جسے اقتصادیات کے ماہرین (اصطلاحاً) ”اقتصادی ترقی“ کہتے ہیں جبکہ اِس اقتصادی ترقی کو کسی ایک طبقے کے حق میں موافق اور دوسرے طبقے کے حق میں غیرموافق نہیں بلکہ مساوی ہونا چاہئے۔پاکستان کی اقتصادی مشکلات کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اپنی کمائی (آمدنی) سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ سال 2021ء میں پاکستان کی قومی خریداریوں کی مالیت (حجم) 69.04 ارب ڈالر رہا جبکہ پاکستان کی برآمدات جسے قومی آمدنی کہنا چاہئے محض 35.57 ارب ڈالر تھی اِس طرح پیدا ہونے والا 33.47 ارب ڈالر کا مالیاتی فرق اُن سبھی خرابیوں کی جڑ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی قومی ترقی خاطرخواہ انداز سے نہیں ہو پا رہی اگرچہ ترسیلات زر جن کی مالیت سال دوہزار اکیس میں اکتیس ارب ڈالر تھی (جی ڈی پی کا 8.7فیصد) ہیں کسی حد تک مالیاتی دباؤ کو کم کرنے کا باعث ہیں لیکن اِن ترسیلات زر میں بھی وقت کے ساتھ کمی آ رہی ہے۔۔ سادہ اور کم خرچ طرزحکمرانی اپنا کر قومی اخراجات میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے اور ایسا ہی کرنا چاہئے۔ دوسری طرف پاکستان میں بدعنوانی سے نفرت کا اظہار تو کیا جاتا ہے لیکن اِسے ختم کرنے کی خاطرخواہ کوششیں نہیں کی جاتیں۔ فیصلہ سازوں کو ایک عام آدمی کے نکتہئ نظر سے صورت حال کو دیکھنا ہوگا کہ کس طرح ’بے تحاشا مہنگائی‘ عام شہریوں کے لئے بقا کا مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ خوراک اور توانائی جیسی اشیائے ضروریہ تیزی سے ان کی مالی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ عمومی استدلال کے مطابق‘ پاکستان کے مسائل بنیادی طور پر سپلائی اور ڈیمانڈ کا فرق ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ طلب بڑھ رہی ہے لیکن ہماری قومی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے بامعنی کوششیں نہیں کی جا رہیں تاکہ طلب و رسد اور درآمدی برآمدات کے توازن کو یقینی بنایا جا سکے۔ سمجھنا چاہئے کہ بنیادی ساختی اور پیداواری مسائل حل کئے بغیر‘ مانیٹری پالیسی‘ شرح سود اور کرنسی کو مستحکم رکھنا ممکن نہیں ہو گا اور اِس سے موجودہ خراب (اَبتر) اقتصادی صورتحال مزید خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سرور خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)