پاکستان کو آب و ہوا کے انصاف کی تلاش ہے اور اِس تلاش میں گزشتہ صدی کے حالات پر نظر کرنی چاہئے‘ جس نے عالمی سطح پر سوچ کو تبدیل کیا‘ جسے ایک وقت میں ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ 1986ء میں جب سویڈن کے آنجہانی وزیر اعظم اولوف پالمے نے اپنے المناک قتل سے کچھ دیر پہلے رنگ برنگی کو ایک ”نظام جس میں اصلاح نہیں کی جا سکتی‘ سے متعلق کہا کہ اِسے ختم کر دینا چاہئے“ تو یہ بات مشہور ہو گئی اور جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیتوں کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا جس کا دور دور تک امکان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پالمے کی تاریخی تقریر کے وقت تک حالات مختلف تھے۔ دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف سرگرم کارکنوں نے خاص طور پر یورپ نے باقاعدہ طور پر نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کئے لیکن مغربی حکومتیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ جنوبی افریقہ کے سفید فام بالادستی کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی تھیں‘ جو بنیادی طور پر بین الاقوامی کاروباری مفادات کے ساتھ اس ملک میں بائیں بازو کے نظریئے کی گرفت کے خوف سے کارفرما تھیں۔ سیاہ فام اکثریتی آبادی کو مساوی جمہوری حقوق دیئے گئے۔ اس کے باوجود‘ صرف چار سال بعد آنجہانی نیلسن منڈیلا کی غیر متوقع طور پر رہائی اور اس کے نتیجے میں ایک مکمل جمہوری جنوبی افریقہ میں پرامن منتقلی بیسویں صدی میں تبدیلی لائی اور وہ بھی بنا خون بہائے سیاسی تبدیلی کا باعث بنا۔ آج‘ جیسا کہ پاکستان اس سال کی موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے دوچار ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد کی جانب سے عالمی مالی مدد کی درخواست کی گئی ہے۔ جنوبی افریقہ کے معاملے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اولف پامے جیسی بلند پایہ شخصیات اسکینڈینیوین کی دیگر حکومتوں کے ساتھ شامل ہونے کے لئے ایک منصفانہ مقصد کی تکمیل کے لئے خصوصی تعریف کی مستحق ہیں لیکن آخر کار یہ جنوبی ِافریقہ کے اندر تبدیلی تھی جس نے عالمی توجہ حاصل کی۔ آنجہانی نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جنوبی افریقہ میں پالمے کی شخصیات اور قابل ذکر شخصیات نے ایک ساتھ مل کر دنیا بھر میں ذہنوں کی ایک طاقتور تبدیلی کا باعث بنا جیسا کہ پاکستان عالمی تخیل کو درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہے‘ اس کے آگے کام عالمی شخصیات اور اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر ہونا چاہئے تاکہ اس کے مقدمے کی دلیرانہ داخلی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تبدیلی کی طرف لے جایا جا سکے۔ یہ واضح ہے کہ صرف ایک پاکستان ہی دنیا کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو تیزی سے بہتری لانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ملک کی سیلاب سے متعلق تباہی سے نمٹنے کے لئے فراخدلی سے عالمی تعاون کی بنیاد رکھے گا۔
شرم الشیخ‘ مصر میں ہونے والی ہائی پروفائل COP27 ماحولیاتی کانفرنس (اجلاس) میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے لے کر عالمی رہنماؤں کے سامنے پاکستان نے اپنا مقدمہ پیش کیا اور یہ بین الاقوامی سطح پر ایک احسن اقدام ہے لیکن پاکستان کے اندر‘ سیلاب کے بعد کی بحالی‘ تعمیر نو اور طویل مدتی تحفظات کے قیام کو ابھی مختصر‘ درمیانی اور طویل مدت کے لئے ”طاقتور حکمت عملی“ کے ساتھ ہونا باقی ہے۔ پاکستان کو حالیہ سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران سے نکالنے کے لئے مستقل بین الاقوامی مفادات کی شکل میں فوائد حاصل کرنے کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ اصلاحات‘ اگر جامع طریقے سے کی جائیں تو‘ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کو اپنے قرضوں اور قرضوں پر سود کی ادائیگی میں سہولت میسر آئے کیونکہ ایک بحرانی صورتحال میں اگر قرضوں کی ادائیگی کی گئی تو اِس سے ملک مزید تباہی کی طرف جائے گا۔ پاکستان کو عالمی سطح پر دو مقاصد اُجاگر کرنے چاہئیں‘ تاکہ نہ صرف ہمدردی کی نگاہ سے پاکستان کو دیکھ بلکہ اندرون ملک بھی اِس حوالے سے پائے جانے والا اختلافی نقطہئ نظر تبدیل ہو۔اسلامی دنیا کے واحد ملک کے طور پر پاکستان کی حیثیت جوہری صلاحیت رکھنے کی وجہ سے مختلف و ممتاز ہے لیکن اگر معاشی اصلاحات بھی کامیابی سے عملاً متعارف کروا دی جائیں تو کوئی وجہ نہیں پاکستان کا شمار دنیا کے بااثر ترین ممالک میں ہونے لگے گا۔ پاکستان کا انتخاب واضح ہونا چاہئے جو بڑی حد تک واضح بھی ہے کہ ملک نیوکلیئر کلب کی اپنی خصوصی رکنیت کے ساتھ معیشت کی اصلاح کرے۔ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو حسب آمدنی و اثاثہ جات ٹیکس ادائیگی کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اِس انڈر پرفارمنگ ٹیکس وصولی کے نظام میں اصلاحات کرنے کے ساتھ غریبوں کی زندگی کے گرتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ رواں سال کے سیلاب نے پاکستان کے بہت سے حصوں میں کم آمدنی والے طبقوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے‘ جن کا معاشی مستقبل پہلے سے زیادہ غیریقینی سے دوچار ہے اور ایسے طبقات کو لاحق گہرے خطرات بُری طرح بے نقاب ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے دیہی علاقوں میں مقامی ہسپتالوں کا ایک بڑا نیٹ ورک تھا جو گزشتہ دہائیوں میں نظر انداز رہا اور حالیہ سیلاب میں اِس نظام کا بڑا حصہ بھی متاثر ہوا ہے جس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب اپنے ساتھ کتنی بڑی آفت لایا‘ جس کا پاکستان کو سامنا ہے اور اِسے سہارا دینے اور بحالی کی ضرورت ہے۔ ایسی ہی ایک ضرورت ملک گیر سطح پر تعلیمی اداروں کے نیٹ ورکس کے لئے بھی ہے اور آخری لیکن کم از کم‘ زرعی شعبے سے منسلک متعدد چیلنجوں نے وقت کے ساتھ غذائی تحفظ کو مزید خراب کرنے میں جو کلیدی کردار ادا کیا ہے اُس کی اصلاح بھی وقت کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)