امریکہ: وسط مدتی انتخابات

امریکہ کے وسط مدتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو ووٹ کی پرچی (بیلیٹ پیپر) پر سابق امریکی صدر ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ کا نام اگرچہ موجود نہیں تھا کیونکہ یہ صدارتی انتخابات نہیں تھے بلکہ امریکہ میں قانون ساز  2 ایوانوں یعنی ایوانِ نمائندگان اور امریکی سینیٹ کے انتخابات تھے مگر اسکے باوجود سیاسی جماعت ’ری پبلکن‘ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے ”ٹرمپ ٹیسٹ“ سے گزرنا تھا جیسے جیسے گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو یہ واضح ہوتا گیا کہ پہلے سے ہی اپنی فتح کا اعلان کرنیوالے ری پبلکنز غلط تھے۔ بہرحال اِن وسط مدتی انتخابات سے قبل ہونے والی تمام پیشگوئیوں میں ’ری پبلکنز‘ کو فاتح قرار دیا جارہا تھا اسی طرح 100نشستوں والی سینیٹ کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہاں نشستوں کی تقسیم چھیالیس اور چوون ہوجائیگی اور اکثریت ری پبلکنز کے پاس ہوگی۔ گزشتہ عام انتخابات میں صدارت‘ کانگریس اور سینیٹ گنوانے کے بعد ری پبلکنز کا خیال تھا کہ وہ صرف جیت نہیں رہے بلکہ بڑی جیت اُنکا انتظار کررہی ہے انکی یہ امید جن سروے کے نتائج پر تھیں وہ زیادہ تر جانبدار (کنزرویٹو) اداروں نے کئے تھے سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی دہائیوں بعد نیویارک اور واشنگٹن جیسی ڈیموکریٹک ریاستوں میں بھی سخت مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے اگر سال دوہزارسولہ کے صدارتی انتخابات پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت شاید ہی کسی پیشگوئی میں ٹرمپ کی جیت بتائی گئی تھی لیکن اس وقت ٹرمپ کے پوشیدہ ووٹرز نے انکے حق میں ووٹ دیا۔ یہ وہ ووٹر تھے جو کبھی اس بات کا اقرار تو نہیں کریں گے کہ مگر اب بھی ہر حال میں وہ ٹرمپ کو ہی ووٹ دیں گے بہرحال انتخابات سے پہلے جتنی بھی پیشگوئیاں کی گئیں انکا نتیجہ اب سامنے آچکا ہے ڈیموکریٹس نے نہ صرف سینیٹ کا کنٹرول اپنے پاس رکھا بلکہ وہ ایوانِ نمائندگان میں بھی ری پبلکنز کی جیت کو معمولی فرق تک محدود رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اگرچہ فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے اپنے ڈیموکریٹک حریف کیخلاف بڑی کامیابی حاصل کی ہے لیکن باقی امیدوار اس دوڑ میں ناکام رہے ہیں وہ لوگ جو طویل عرصے اور ٹرمپ دور سے پہلے کے چند ری پبلکنز میں شامل نہیں تھے وہ بھی پارٹی میں رہنے میں کامیاب ہوگئے دوہزاربیس میں جارجیا کے نتائج کی بنیاد پر ہی ڈیموکریٹ نے سینیٹ میں اکثریت حاصل کی تھی کیمپ وہ ری پبلکن فرد تھے جنہیں دوہزاربیس میں ٹرمپ نے ’میل اِن‘ ووٹوں کو مسترد کرنے کیلئے دباؤ میں لینے کی کوشش کی تھی کیونکہ ان میں اکثریت ڈیموکریٹس کو ووٹ ڈالے گئے تھے تاہم کیمپ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا‘ لہٰذا جہاں انہوں نے دیگر انتخابات میں ڈیموکریٹس کو ووٹ دیئے وہیں گورنر کیلئے ری پبلکن امیدوار کیمپ کو ووٹ دیدیا  ہفتے کی رات تک ’سی این این‘ نے ریاست نیواڈا میں ڈیموکریٹ سینیٹ امیدوار کیتھرین کورٹیز مستو کی جیت کی پیشگوئی کردی تھی انکی جیت سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی برتری برقرار رہے گی‘ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ ری پبلکن اسکو کنٹرول نہیں کرینگے اور اسلئے وہ قدامت پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہینگے اس ہفتے کے آغاز سے ہی طرفین غیر متوقع انتخابی نتائج کیلئے تیار تھے۔ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں انڈونیشیا جاتے ہوئے صدر بائیڈن کو اپنی جیت کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً ہی صحافیوں کو بتایا کہ وہ انتخابات کے نتائج سے خوش ہیں۔ یہ بات واضح تھی کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ذاتی طور پر خفا تھے۔ انکی ایک بیٹی کی شادی گزشتہ ہفتے ہوئی تھی اور ٹرمپ کی طرف سے جاریکردہ بیان میں کہا گیا کہ اس انتخابی نتائج سے وہ بری الذمہ ہیں‘ مزے کی بات یہ کہ سابق صدر ٹرمپ نے اس انتخاب کے بڑے ری پبلکن فاتح یعنی فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس کا مذاق بھی اڑایا۔ شاید ایسا اس لئے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ انتخاب لڑتے ہیں تو ممکنہ طور پر رون ڈی سینٹیس ہی انہیں چیلنج کریں گے اگر ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ والے ری پبلکنز جیت جاتے تو یورپ اور خاص طور پر یوکرین اسکے فوری اور خطرناک اثرات کا نشانہ بنتے‘(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافیعہ ذکریا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)