ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) ہر سال اکتوبر کے مہینے میں ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے مناتی ہے اور اِس موقع پر توجہ دلائی جاتی ہے کہ قدرتی اور انسانی ساختہ ایسے امکانات موجود ہیں جس سے انسانی ذہنی صحت اور تندرستی متاثر ہو رہی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے بہت سے نفسیاتی و ذہنی امراض پیدا کئے ہیں۔ دنیا کورونا وبا سے نمٹتے ہوئے تیسرے سال سے گزر رہی ہے اور ابھی اِس بیماری کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ دنیا عادی ہے کہ طویل عرصے سے جاری جنگیں اور تنازعات‘ موسمیاتی تبدیلیوں‘ کمزور معاشی حالات‘ امتیازی سلوک اور تشدد‘ ناانصافی و عدم مساوات وغیرہ کا سامنا کرے اور شاید ہی کوئی قوم اِن آفات و سانحات سے محفوظ رہی ہوگی۔
دماغی صحت کے دن کے لئے رواں برس کا پیغام (تھیم) ”ذہنی صحت اور تندرستی کو عالمی ترجیح بنائیں“ رکھا گیا ہے جو نہایت ہی درست انتخاب ہے۔ اکثر غلط فہمی یا بدنامی سے بچنے کے لئے ذہنی امراض کا علاج نہیں کرایا جاتا اور خراب دماغی صحت کو برداشت کیا جاتا ہے جو سنگین بحران کی نشاندہی کر رہا ہے۔ کورونا وبا کے پہلے سال کے بعد‘ بے چینی اور ڈپریشن مسلسل پھیل رہا ہے اور اِس میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اِس سے متاثرین میں اب اکثریت نوجوانوں اور خواتین کی ہے۔ پاکستان کی بائیس کروڑ سے زائد آبادی میں دماغی و اعصابی بیماریوں کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ معالجین کی کمی ہے۔ پورے ملک میں صرف پانچ سو مستند ماہرین نفسیات ہیں۔ عالمی ادارہئ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں آبادی کا ایک فیصد شدید اور دس فیصد ہلکے دماغی امراض کا شکار ہے۔ گلوبل برڈن آف ڈیزیز کے مطابق دماغی بیماریاں عمومی بیماریوں کے ساڑھے دس فیصد کے مساوی ہیں۔ ہمارے پاس کسی بھی قسم کے ذہنی عارضے میں مبتلا ہر دس ہزار افراد کے لئے صرف ایک سائیکاٹرسٹ دستیاب ہے اور دماغی صحت کے مسائل میں مبتلا ہر دس لاکھ بچوں کے لئے ایک چائلڈ سائیکاٹرسٹ ہے۔ یہ تناسب انتہائی کم بلکہ تشویشناک حد تک کم ہے۔
پاکستان میں دماغی صحت کے پیشہ ور افراد کی یہ کمی علاج معالجے کی فراہمی میں بڑا فرق پیدا کرتی ہے کیونکہ اس سے عام ذہنی امراض میں مبتلا نوے فیصد سے زیادہ افراد کا علاج نہیں ہوتا ہے۔ آبادی کا تقریباً دس سے سولہ فیصد‘ ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ شہری‘ معمولی یا اعتدال پسند نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ پاکستانیوں میں پائے جانے والی عمومی نفسیاتی عوارض میں ڈپریشن (چھ فیصد)‘ شیزوفرینیا (ڈیڑھ فیصد)‘ مرگی (ایک سے دو فیصد) شامل ہیں۔ خطے کے لحاظ سے‘ لاہور میں ڈپریشن کے عوارض کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو کوئٹہ (44فیصد) کراچی (35فیصد) اور پشاور کے مقابلے زیادہ ہے۔ کام کاج کی جگہوں پر‘ خواتین ذہنی طور پر تکلیف دہ تجربات سے گزرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین سے بلا معاوضہ مشقت لی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ دماغی صحت کے مسائل کے علاج میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ نفسیاتی مریضوں کی اکثریت سائیکوببل کا استعمال کرتے ہوئے غیر پیشہ ورانہ علاج کرنے والوں سے علاج کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ دماغی صحت اور اِس سے متعلق علاج کے مراکز بڑے شہروں میں دستیاب ہیں اور بہت سے اضلاع اور یہاں تک کہ ڈویژنز میں ماہرین دستیاب نہیں اس لئے ذہنی صحت کی خدمات کے علاج کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال میں بنیادی حیثیت حاصل نہیں جبکہ ذہنی صحت کو مربوط اور بنیادی علاج معالجے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں کی دماغی صحت کی خدمات پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی اٹھارہ سال سے کم عمر ہے اور بچوں کی نفسیات کے شعبے میں صرف چند تربیت یافتہ اہلکار ہیں۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک‘ جو غربت‘ کم شرح خواندگی اور تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی کمی سے دوچار ہے‘ صحت عامہ اور نفسیاتی نگہداشت کی بہتری کے لئے اپنے نقطہ نظر میں از سر نو ترتیب کا مستحق ہے۔ ہمیں اپنے صحت کے نظام میں شامل ایک مضبوط پالیسی کی ترقی اور اِس کے نفاذ کے لئے فوری عمل و ردعمل کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اِداروں اور پیشہ ورانہ اِداروں کے مضبوط کردار کے ساتھ عوام کے روئیوں میں تبدیلی اور ذہنی صحت سے متعلقہ علوم پر خصوصی زور دینے کی ضرورت ہے۔ ایک مربوط قومی ذہنی صحت کی پالیسی کے لئے کام‘ تعلیم اور تحقیقی کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لئے شہری سہولیات کا معیار بلند کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں صحت کے بہتر نظام کی ضرورت ہے جو فیملی پریکٹیشنرز‘ ٹیلی میڈیسن فراہم کرنے والوں اور ڈیجیٹل خدمات کے ذریعے معیاری ذہنی صحت کی خدمات تک آسان رسائی فراہم کرے۔ بچوں اور بڑوں کے لئے دماغی صحت کے بحالی مرکز کی ضرورت ہے جہاں شدید صدمے کا شکار افراد کو رکھا جائے اور اُن کے علاج معالجے کے ذریعے بحالی میں مدد دی جائے۔ دماغی صحت خود نہیں دیکھی جا سکتی۔ تاہم اس کی موجودگی کسی کی جسمانی صحت میں آسانی سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ جذباتی بیماریاں ہماری زندگی کے ساتھ آس پاس کے لوگوں کو بھی متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔ وقت ہے کہ ہم ذہنی صحت کی اہمیت کو تسلیم کریں اور عہد کریں کہ اس کے بارے میں زیادہ بات چیت اور اِن کی موجودگی کو قبول کریں گے۔ ذہنی امراض سے انکار اِس کا حل نہیں بلکہ اس کی موجودگی کو اُجاگر کرنے اور صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے علاج کو ترجیح دینا ضروری ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر اقبال آفریدی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)