موسمیاتی انصاف

عالمی اقتصادی اور سلامتی کے بحران میں سب کی نظریں تحفظ ماحول کے عالمی معاہدے (COP27  عالمی اتفاق رائے) پر لگی ہوئی ہیں۔ مذکورہ سربراہی اجلاس نے ’موسمیاتی فنڈ‘ کے قیام کی منظوری دی ہے تاکہ وہ ممالک جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں‘ اُنہیں اپنے ہاں اِن نقصانات کے اثرات کم کرنے کے لئے مالی مدد دی جا سکے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرین کو بحالی میں مدد دی جائے۔موسمیاتی انصاف کے لحاظ سے یہ اقدام گلوبل ساؤتھ کے ممالک پر کس طرح اثر انداز ہوگا‘ یہ اُسی وقت علم ہوگا جب یہ فنڈ جاری ہو۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران‘ ترقی پذیر ممالک نے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی سے کمر کس لی ہے کہ وہ ترقی یافتہ دنیا سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور نقصانات کی ادائیگی کا مطالبہ کریں گے۔ اس سلسلے میں حالیہ سربراہی اجلاس ترقی پذیر ممالک کے لئے خوش قسمت ثابت ہوا کیونکہ رہنماؤں نے عالمی فنڈ کی تشکیل کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ کیا۔ سربراہی اجلاس کے اختتام پر‘ امیر ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو معاوضہ دینے پر اتفاق کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے ہیں یا جنہیں مستقبل قریب میں موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات لاحق ہیں اور اِن کے پاس موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے وسائل محدود ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے الزام تراشی کا کھیل بھی جاری ہے۔ کاربن آلودگی پھیلانے والے اور کمزور ممالک ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں اور محفوظ اور پائیدار دنیا کے لئے کاربن آلودگی پھیلنے کے عمل کو روکنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف امیر ممالک نے طویل عرصے سے موسمیاتی نقصانات اور ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی سبسڈیز پر بحث روک رکھی ہے تو دوسری طرف تاریخی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی بھاری مقدار کے لئے بھی وہی ممالک ذمہ دار ہیں۔ جو ترقی پذیر ممالک پر بدعنوانی اور ناقص گورننس کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف ترقی پذیر ممالک صرف اپنے آپ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے متاثرین کے طور پر پیش کرکے موسمیاتی بحران کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے میں اپنی نااہلی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں حقیقت میں انسانی وجود کے لئے خطرہ ہیں اور اِس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے کافی دستاویزی ثبوت اور تحقیق موجود ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی۔ اس کے نتائج بلاشبہ تمام ممالک میں غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔ جو ترقی پذیر ممالک میں بھی موسمیاتی عدم مساوات کا باعث بنتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر‘ جن ممالک میں کاربن آلودگی کم ہے وہ بھی موسمیاتی بحران کے مضر اثرات کے لئے سب سے زیادہ کمزور اور حساس ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی عذر دولت مند ممالک کی جانب سے موسمیاتی مالیاتی فنڈ بنانے اور COP15 کے دوران 2009ء میں کئے گئے ایک سو ارب ڈالر کی امداد کے وعدے پورا کرنے میں ناکامی کا جواز پیش نہیں کر سکتا جن سے غریب ممالک میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور انہیں حالات کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل سکے چونکہ آب و ہوا میں تبدیلی کا باعث بننے والی کاربن آلودگی کے اخراج والے خطے خوفناک تباہی کے دہانے پر ہیں‘ اس لئے پہلی بار عالمی ایجنڈے میں ماحولیات کے بارے حوصلہ افزاء بات ہوئی ہے۔ عالمی رہنماؤں کو اس معاملے کی اہمیت کا ادراک کرنے میں تیس سال لگے ہیں لیکن اب بھی قدرتی غیر معمولی آفات کا مشاہدہ کرنے میں خاطرخواہ حساسیت نہیں پائی جاتی۔ رواں سال جولائی میں یورپ‘ چین اور امریکہ میں شدید گرمی کی لہروں کے الگ الگ لیکن ایک جیسے سانحات پیش آئے۔ موسلا دھار بارشوں نے جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں سیلاب اور مشرقی افریقہ میں طویل خشک سالی پیدا کی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوئے جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد بھوک اور قحط کے دہانے پر رہ گئی۔ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے اور اس کے مطابق ڈھالنے کے لئے ادارہ جاتی مالی اور اقتصادی صلاحیت کی کمی انہیں موسمیاتی ایمرجنسی کے وقت بے بس کر دیتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے نتائج کے لئے گراؤنڈ زیرو ہے۔ اس کی زراعت پر مبنی معیشت (براہ راست فطرت سے جڑی ہوئے) متنوع منظر نامے کے ساتھ جو شمال میں بلند پہاڑوں سے مشرق میں دریائے سندھ کے میدانی علاقوں تک پھیلا ہوا ہے‘ گھنے جنگلات سے لے کر مغرب میں بلوچستان کے مرتفع تک‘ سیلابی میدانوں سے لے کر دریائی ڈیلٹا تک اور قدرتی وسائل اور متنوع آب و ہوا نے پاکستان کیلئے موسمیاتی خطرات کو زیادہ وسیع اور خطرناک بنا دیا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنا اب تقریباً ناگزیر ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کر رہ ہیں بالخصوص پاکستان جیسے اقتصادی بحران اور مالی مشکلات رکھنے والے ممالک کے لئے   (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ثمر قدوس۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)