اختراع برائے خوشحالی

جدید ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری اور برآمد کو ہماری اقتصادی ترقی کے لئے ’کلیدی ستون‘ کے طور پر کام کرنا چاہئے اور اِس سلسلے میں تقریباً ہر شعبے میں وسیع ترقیاتی مواقع موجود ہیں۔ اگر ہم ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کے شعبے پر ہی غور کریں تو پاکستان کی برآمدات رواں سال تین ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ صرف مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اگلے پانچ سالوں میں تقریباً سولہ کھرب ڈالر تجارت کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اگر پاکستان اس مارکیٹ کا ایک فیصد بھی حاصل کر لیتا ہے تو اِسے ممکنہ طور پر 160 ارب ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ تین سال قبل وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام نے ’مصنوعی ذہانت (اے آئی)‘ میں سینٹرز آف ایکسی لینس کا نیٹ ورک بنانے کے لئے قومی منصوبے کا تصور پیش کیا اور اِسے منظوری کے لئے وزارت منصوبہ بندی کو پیش کیا گیا لیکن وزارت نے  ابھی تک اس منصوبے کی فزیبلٹی پر غور و خوض کا عمل مکمل نہیں کیا اور اندیشہ ہے کہ یہ خیال بھی سردخانے کی نذر ہو جائے گا۔ حکمت عملی کے لحاظ سے اس اہم اقدام کو تیزی سے آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ اگر ہم اپنے آئی ٹی گریجویٹس کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دیں تو ممکنہ طور پر اپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی برآمدات کے ذریعے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ یہ ہدف ہماری جامعات میں اعلیٰ معیار کے اساتذہ کی تربیت اور اُن کی شمولیت سے چند ارب روپے کی سرمایہ کاری کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ویکسین کا میدان ایک اور اچھی مثال ہے۔ کورونا وبا کی حالیہ صورتحال میں ویکسین کی تیاری اور برآمد کرنے کی ہماری مقامی صلاحیت کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی۔ پاکستان میں کووِڈ کی وبا کے آغاز پر جامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ کے سائنسدانوں نے کورونا کی مختلف اقسام کی شناخت اور ان کے جینیاتی تجزئیات کے بارے میں تحقیق کی جو عالمی معیار کے مطابق تھی۔ چین کی کمپنی سائنو فارم نے بھی اپنے ایک سو بیس بستروں پر مشتمل تحقیقی ہسپتال میں کورنا وبا کے مریضوں پر کلینیکل ٹرائلز کرنے کے لئے پاکستانی یونیورسٹی کا انتخاب کیا‘ جس کے بعد وائرس سے لڑنے کے لئے سائنو فارم نامی ویکسین پاکستان میں متعارف کرائی گئی۔ مذکورہ ویکسین کی تیاری صرف نجی صنعت ہی کر سکتی ہے اور یہیں پر پاکستان ناکام ہوا کیونکہ پاکستان میں کسی دوا ساز کمپنی کے پاس کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔  آئی ٹی اور فارماسیوٹیکل کے علاوہ معدنیات نکالنے اور پروسیسنگ‘ جدید زراعت‘ انجینئرنگ میں استعمال ہونے والا سازوسامان‘ الیکٹرانکس‘ نینو ٹیکنالوجیز اور دفاعی مواد کی تیاری میں بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ڈرون اور لڑاکا طیارے جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اِن شعبوں میں پاکستان کی ابتدائی سرمایہ کاری بھی موجود ہے۔ نجی کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے مناسب تعاون کے ساتھ تحقیق‘ ترقی اور مینوفیکچرنگ میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اعلیٰ ٹیکنالوجی (اور اسی وجہ سے اعلیٰ ویلیو ایڈڈ) مصنوعات کی تیاری اور برآمد کے لئے نجی شعبے میں تحقیق و ترقی کی کوششوں کو مناسب طریقے سے ترغیب دینے میں ناکام رہی ہیں۔ نتیجے کے طور پر‘ ہم اپنے آپ کو ایک بہت بڑے بحران میں گھرا ہوا پاتے ہیں اور ایک بڑی مالیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں‘ جس کا اِس قوم نے سامنا کیا ہے۔ ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والے چند بین الاقوامی مراکز ہیں جن میں مرکز برائے کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز شامل ہے جس کے تحت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری اور ڈاکٹر پنجوانی سنٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ بھی کام کر رہے ہیں۔ کئی شعبوں میں فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں سکولوں کی سطح کی تعلیم پر نظرثانی کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ سکول کے تمام اساتذہ تربیت یافتہ ہوں اور اُن کے پاس تدریس کا ضروری ہنر موجود ہو۔ ہمیں آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر تعلیم وفاق کے کنٹرول میں آجائے۔ اس کے بعد میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطحوں پر ایک سنٹرلائزڈ قومی ٹیسٹ متعارف کرایا جانا چاہئے تاکہ اچھے معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔ تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ (بائیس ملین) بچے سکول سے باہر ہیں اور اِس مسئلے کو بھی فوری طور پر حل کیا جانا چاہئے۔ دوسرا ہمیں اپنی کچھ یونیورسٹیوں کو تحقیقی یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تجارتی مصنوعات کی ترقی تیز کرنے اور اِس شعبے کے صنعتوں کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرنے کے لئے جامعات میں ٹیکنالوجی پارک قائم کرنا چاہئیں۔ تیسرا ہمیں آزادانہ ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات پیش کرتے ہوئے قومی تحقیق اور ترقی کی کوششوں میں نجی اداروں کو شامل (شریک سفر) کرنا چاہئے۔ اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ بھارت نے سائنس‘ اختراع‘ تحقیق اور ترقی کے منظر نامے کو اصلاحات سے تبدیل کیا ہے۔ ہماری حکومت مقامی مصنوعات کی اہم خریدار بن کر مقامی صنعت کو سپورٹ کر سکتی ہے۔ بھارت نے تمام سرکاری اداروں کے لئے صرف وہی گاڑیاں خریدنا لازمی قرار دی ہیں جو اُس کے اپنے ہاں آٹوموبائل سیکٹر بنا رہا ہے اِس طرح قومی ترقی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ بھارت میں اسمبل شدہ گاڑیاں نہیں بلکہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاں وہاں کا وزیراعظم اور وزرأ استعمال کرتے ہیں جنہیں ’ایمبیسیڈر کار‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی مقامی آٹوموبائل انڈسٹری اور مقامی صنعتوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خریداری کے قوانین بھی تبدیل کرنے چاہئیں اور سرکاری اداروں کو صرف مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات خریدنے کا حکم دینا چاہئے۔ ہمیں پھانسی کی سزا متعارف کروا کر بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ بہت سے ممالک نے کر رکھا ہے۔ پاکستان کا مستقبل تعلیم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ اختراع‘ کمرشلائزیشن اور ہائی ٹیک مصنوعات کی برآمد میں پوشیدہ ہے۔ ایسے مستقبل کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس بصیرت‘ ایماندار اور تکنیکی طور پر قابل قیادت ہونی چاہئے جس کے بہترین ماہرین کو صدارتی نظام حکومت میں بطور وزیر منتخب کیا جائے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی اور سابق سربراہ رہے ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)