روس کی عملیت پسندی

روس نے 20 فروری 2002ء کے روز یوکرین پر حملہ کیا اور اس کے بعد سے اس کی فوجی کاروائیوں کی شدت اور دائرہ کار بڑھنے کی بجائے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ولادیمیر کواچکوف‘ ایک ریٹائرڈ روسی کرنل ہیں جو 2019ء میں جیل سے رہا ہوئے تھے اور جنہوں نے حال ہی میں اپنا سیاسی کیریئر دوبارہ شروع کیا‘ اِس حوالے سے ایک دلیل دیتے ہیں کہ ”خصوصی فوجی آپریشن کا کورس اور نتائج کا براہ راست تعلق فوجی سیاسی اہداف اور مقاصد سے ہوتا ہے۔“ یوکرین میں روسی ’ایس ایم او‘ کا اعلان کردہ ہدف یوکرین کو غیر فوجی بنانا اور اسے ختم کرنا ہے۔ اگرچہ اس فوجی آپریشن سے بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن روس نے حال ہی میں تین اہم اقدامات کئے‘ جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی فوجی حکمت عملی کی معقولیت اور دانشمندی کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ تنازعے کو 2023ء میں ایک طویل جنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اِس میں بار بار کی پسپائی سے اکتوبر 2022ء میں متعارف کرائے گئے نئے ہنگامہ خیز قوانین اور یوکرین میں نئے کمانڈر کی تقرری شامل ہیں۔ یوکرینی افواج نے اب تک کامیابی سے روسی فوج کو کیف‘ خرکیف اور خرسون سے نکال باہر کیا ہے۔ کھرسن پہلا علاقائی دارالحکومت تھا جس پر روسی افواج نے قبضہ کیا اور اسے پیوٹن کے اس اعلان کے ساتھ قابو کیا گیا کہ اب کھرسن ہمیشہ کے لئے روس کا حصہ رہے گا لیکن بالآخر روس کو یہاں سے پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ اس کی افواج بہت زیادہ‘ سپلائی کم اور بڑے پیمانے پر یوکرینی افواج کا سامنے کرنا پڑ گیا۔ اس سے قبل‘ کیف کی جوابی کاروائی نے روسی فوجی کاروائیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جس کے نتیجے میں مارچ 2022ء میں شہر سے افواج کا انخلأ ہوا تھا اگرچہ یہ شکست پیوٹن کے حکومت کی تبدیلی کے ہدف کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا اور اس نے ان کی کمزور فوجی مہم کی نشاندہی کی تھی لیکن روسی نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومن نے اسے ایک ایسا اقدام قرار دیا جس کا مقصد ”باہمی اعتماد میں اضافہ‘ مستقبل کے مذاکرات کے لئے صحیح حالات پیدا کرنا اور امن و امان تک پہنچانا ہے۔ استنبول میں امن مذاکرات کے دوران‘ یوکرین کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کا حتمی مقصد بھی یہی تھا۔ اِس انخلأ نے روس کو اپنی جنگی قوت کو دوبارہ بنانے کے لئے کچھ وقت دیا۔ کھیرسن کے انخلأ سے روس کو دریائے دنیپرو کے مشرقی کنارے پر اپنے فوجیوں کو زیادہ فائدہ مند دفاعی پوزیشنوں پر منتقل کرنے کی مہلت مل سکتی ہے جہاں یوکرینی افواج کے لئے گھسنا مشکل ہے کیونکہ انہوں نے اپنی فوجی کاروائیوں کے ایک حصے کے طور پر دریا پر بڑے پلوں کو تباہ کر دیا ہے لیکن وہ یوکرینی افواج کو کریمیا کے قریب بھی گھیر سکتے ہیں جسے روس نے 2014ء میں اپنے علاقے کے طور پر ضم کر لیا تھا۔ ’کیف‘ نے اب اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک روسی افواج کریمیا سے نکل نہیں جاتیں‘ اُس کے ساتھ بات چیت نہیں کی جائے گی۔موسم سرما کے سخت اور ہر دن بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے کے لئے‘ روس کا پسپائی اور دفاعی پوزیشنوں پر منتقل ہونا جنگ سے ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ بہت سے روسی اب جنگ سے تھک چکے ہیں۔ ان حالات میں‘ انخلأ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات میں کسی بھی قسم کی کمی کا روسی قوم خیرمقدم کرے گی۔ بار بار ہونے والی پسپائی روس کی مراعات کے لئے جگہ دینے پر آمادگی کی بھی نشاندہی کرتی ہے‘ جو کہ ایک عقلی عملی نقطہئ نظر ہے۔ اس سے پہلے‘ کھیرسن کی پسپائی‘ محدود پیمانے تک‘ بین الاقوامی غصے کو کم کر سکتی تھی جو پیوٹن کے چار الحاق شدہ یوکرینی صوبوں میں مارشل لاء کے اعلان کے بعد اس پر بہت زیادہ متوجہ ہوا تھا۔ اکتوبر میں متعارف کرائے گئے نئے ہنگامی حالات کے قوانین نے یوکرائن کے چار صوبوں لوہانسک‘ زپوریزہیا‘ ڈونیٹسک اور کھیرسن کے سربراہان کے ساتھ ساتھ کریمیا اور سیواسٹوپول کے صوبوں کے سربراہوں کو امن و امان برقرار رکھنے اور پیداوار بڑھانے کے لئے فیصلہ سازی جیسے اختیارات دیئے۔ مذکورہ قوانین کے نفاذ میں ایک چٹکی بھر سمجھداری بھی شامل ہے کیونکہ ان کا مقصد جنگ کے جغرافیائی دائرہ کار کو وسعت دینے کے بجائے الحاق شدہ صوبوں کے حوالے سے زیر قبضہ مقاصد کا دفاع کرنا ہے۔ ساتھ ہی‘ روسی جنگی کوششوں کی حمایت کے لئے ان خطوں کا اقتصادی متحرک ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ بلاشبہ‘ روسی افواج کو شکستوں کے ایک سلسلے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں جنوبی اور شمال مشرقی یوکرین کی طرف سے الٹ پلٹ کر فوجی تیاریوں اور میدان جنگ کی کمان کے بارے میں سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ ماسکو کے لئے جنگ کے وقت ہونے والے نقصانات بہت زیادہ تھے‘ جس کے نتیجے میں روس کے اندر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی۔ یوکرین کے جوابی حملے کو برداشت کرنے میں ناکام‘ کیف اور کھارکیف سے انخلأ کیا گیا لیکن اس نے روس کے حکمرانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ خاص طور پر روسی فوجی کارکردگی پر روسی اشرافیہ کے اندر تنقید کم کرنے کے لئے جنگی کمان میں تبدیلی درست قدم ہے‘ جس کی بنیادی وجہ نئے جنرل کی مبینہ طور پر اعلیٰ ساکھ اور نظام کے اندر وسیع تر قبولیت ہے۔ اکتوبر 2022ء میں جنرل سرگئی سرووکِن کی بطور خصوصی فوجی آپریشن کے علاقوں میں مشترکہ گروپ کمانڈر“ کے طور پر تقرری کو روسی حکمت عملی میں ایک عقلی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ صدر پیوٹن نے یوکرین کے جنوب مشرقی علاقوں ڈونیٹسک اور لوہانسک میں رہنے والے روسیوں کی حفاظت کے لئے خصوصی فوجی کاروائیاں کیں اور روسی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے کو کم سے کم وقت میں ختم کیا لیکن یوکرینی جوابی کاروائی‘ جس میں اِسے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے روس کی پیشقدمی اور فتوحات کو روک رکھا ہے۔ روس کی ترجیحات میں دوبارہ گروپ بندی‘ ملحقہ کریمیا کا دفاع اور کریمیا کو یوکرین کے پانیوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ اپنی فوجی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کے لئے تازہ ترین روسی اقدامات 2023ء تک تکلیف دہ طویل جنگ کی صورت جاری رہیں گے لیکن اُمید ہے کہ صدر پیوٹن عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگ کی بجائے مذاکرات کے ذریعے تنازعے کے حل کی تجویز سے اتفاق کریں گے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر:  ڈاکٹر سلمیٰ شاہین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)