مذہبی سیاحت: خاموش گواہ

کینیڈا کی قومی تاریخ میں پہلی بار نومبر کو ہندو ورثے کے مہینے کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ کینیڈین پارلیمنٹ کے ہندو رکن چندر آریہ کی جانب سے نومبر کو سالانہ بنیادوں پر ہندو ورثے کے مہینے کے طور پر منانے کے لئے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اس اقدام کا مقصد ملک بھر میں مقیم 8 لاکھ 83 ہزار کینیڈین ہندوؤں کی موجودگی اور قومی ترقی میں اُن کے کردار کو تسلیم کرنا ہے کینیڈا نے اپنے مثبت اقدام سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی کا راز اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہے اور ترقی کی اِس دوڑ میں صرف وہی معاشرے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں جو ہر قسم کے تعصب کی حوصلہ شکنی کر کے اپنے ہاں اقلیتوں کو گلے لگاتے ہیں اور کھلے دل کے ساتھ اُن کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔کینیڈا میں ہندوؤں کا مہینہ منانے کے اقدام نے راقم الحروف کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی وہ مشہور تقریر یاد دلائی جو انہوں نے گیارہ اگست 1947ء کے روز کی تھی اور جس میں انہوں نے اقلیتوں کو یقین دلایا تھا کہ تمام پاکستانی شہری خواہ وہ کسی بھی سماجی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں۔ مساوی شہری حقوق اور نئے قائم ہونے والے ملک کی ترقی کے مواقع رکھیں گے۔ پاکستان بھر میں بے شمار تاریخی مذہبی مقامات ہیں‘ جنہوں نے خطے کی قدیم تاریخ کو صحیح طور پر محفوظ کیا ہے۔ یہ ایک اور دلچسپ حقیقت ہے کہ ہندومت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت سمیت متعدد مذاہب کے اہم ترین مذہبی مقامات موجودہ پاکستان میں واقع ہیں۔ صحرائے تھر‘ جو آج کے سندھ کا ممتاز علاقہ ہے کا تذکرہ مقدس کتاب ”رامائن“ میں لان ساگر (نمک کا سمندر) کے طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے علاؤہ ہندوؤں کی ایک اور مقدس کتاب ’رگ وید‘ پندرہ سو قبل مسیح میں دریائے سندھ کے کنارے لکھی گئی تھی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے پیروکار کبھی سندھ میں واقع موہنجو داڑو میں آباد تھے۔ اسی طرح ہولی کا مذہبی تہوار سب سے پہلے ملتان کے پرہلاد مندر سے شروع ہوا۔ دیگر مقدس عبادت گاہیں جن کا دنیا کا ہر ہندو دورہ کرنا چاہتا ہے‘ وہ ہیں پنجاب میں کٹاس راج مندر‘ بلوچستان میں ہنگلاج ماتا مندر‘ سندھ کے ننگرپارکر میں چریو مندر‘ آزاد کشمیر میں شاردا پیٹھ مندر اور خیبرپختونخوا میں شری پرمھانس جی مہاراج سمادھی یاتیری مندر۔ دوہزار سالہ قدیم گندھارا تہذیب‘ جو موجودہ پاکستان کے شمالی حصے سے تعلق رکھتی ہے‘ ہمارے خطے میں بدھ مت کے شاندار ماضی کی عکاس ہے۔ آج بھی تاریخی شہر ٹیکسلا سے لے کر سوات اور گلگت بلتستان تک‘ ملک بھر میں بدھ مت کی عظیم یادگاریں اور مذہبی مقامات موجود ہیں۔ ننکانہ صاحب‘ بابا گرو نانک کی جائے پیدائش اور سکھوں کا سب سے مقدس مذہبی مقام بھی پاکستان میں واقع ہے۔ ہر سال سکھ یاتری بڑی تعداد میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی دیکھنے کے لئے پاکستان آتے ہیں۔ کرتارپور صاحب گوردوارہ دنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد مذہبی سیاحتی مقام ہے۔ پاکستان بھر میں برطانوی دور حکومت میں قائم ہونے والے تاریخی گرجا گھر بھی موجود ہیں جو ان کے منفرد طرز تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کراچی میں سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل 1857ء کی جنگ آزادی سے ایک دہائی قبل قائم کیا گیا تھا۔ دیگر تاریخی گرجا گھروں میں لاہور میں سینٹ اینڈریو چرچ‘ ملتان میں سینٹ میریز کیتھیڈرل چرچ‘ سیالکوٹ میں ہولی ٹرنیٹی چرچ‘ پشاور میں سینٹ جانز کیتھیڈرل اور ایبٹ آباد میں سینٹ لیوک چرچ شامل ہیں۔ اِن معروف مذہبی مقامات کے علاؤہ لاتعداد نامعلوم آثار قدیمہ ہیں جن کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مقامات (سائٹس) ہمارے شاندار ماضی کی خاموش گواہ ہیں۔ مذہبی سیاحت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم الحروف کو یقین ہے کہ تاریخی عمارتوں کی شکل میں یہ انمول خزانہ نہ صرف ہمیں غیر ملکی قرضوں سے آزاد کر سکتا ہے بلکہ ہماری قومی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتا ہے تاہم اِن کی حفاظت کے لئے پہلا قدم تاریخی مقامات کی شناخت اور پیشہ ورانہ انداز میں ممکنہ مقامات کو ظاہر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہندو کونسل نے ملک گیر تصویری مقابلہ آل پاکستان مینارٹیز ہیریٹیج فوٹو مقابلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تمام پاکستانی شہری شرکت کے اہل ہوں گے۔ پریس نیٹ ورک آف پاکستان کی تکنیکی مدد سے منعقد ہونے والے اس مقابلے کا مقصد غیر مسلم اقلیتی مذاہب کی قدیم عمارتوں کو تلاش کرنا اور ان کو اجاگر کرنا ہے۔ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ ہم اپنے پیارے ملک میں واقع اپنے عظیم ورثے کی جگہوں کا احترام اور اِن کا تحفظ کریں یا اِن کے تحفظ کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)