یوکرین کا شاید ہی کوئی ایک بھی حصہ ایسا ہو جسے روس کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ یوکرین کے دارالحکومت کیف کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے ماسکو کو بے پناہ طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ اِسی طرح بجلی و گیس کی تنصیبات بھی تباہ کی گئیں۔ سال دوہزارچودہ سے روس اور یوکرین تنازعہ چل رہا ہے۔ روس نے پہلے کریمیا پر قبضہ کیا اور یوکرین کے عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس کے بعد فوج کشی کی گئی اور کیف پر قبضہ کرنے میں روس کی ناکامی اور ستمبر میں شمال مشرق میں کھرکیو کے علاقے کو کھونے اور نومبر میں یوکرین کے پاور پلانٹس پر میزائل حملوں ایسے چند واقعات ہیں جنہوں نے برسہا برس کی ترقی کو برباد کر دیا ہے اور اِس وقت یوکرین کا نصف سے زیادہ حصہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ماسکو کے ساتھ بات چیت کو مسترد کرتے ہوئے جیسا کہ امریکہ نے خفیہ طور پر تجویز کیا تھا‘ صدر ولادیمیر زیلسنکی کے مشیر پوڈولیاک نے واضح کیا ہے کہ ”جب تک روس جنگ نہیں روکے گا اُس وقت تک مذاکرات سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔ حالیہ چند ہفتوں میں روس کی بھاری فوجی شکستوں کے باوجود روس حملے کر رہا ہے جبکہ یوکرین فوجیوں نے ملک کے اہم جنوبی شہر خرسن پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ یوکرین کو تباہ تو کر سکتے ہیں لیکن اِس کے ساتھ مذاکرات میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور شاید اِسی لئے وہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔یوکرین کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کا باعث بننے والا ریفرنڈم کرایا گیا۔ روس کی جانب سے اِس ریفرنڈم کے نتیجے میں یوکرین کے چار خطوں پر قبضہ کر لیا گیا اور پھر اِس قبضے کو قانونی شکل دی گئی جس سے روس کے اپنے جغرافیائی مفادات اور تزویراتی مقاصد شامل تھے لیکن تاریخ عیاں ہے کہ اِس ریفرنڈم کی صورت کی گئی کوشش میں بھی روس ناکام رہا۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سنک نے اپنے حالیہ دورہ کیف کے دوران پچپن ملین پاؤنڈ مالیت کا دفاعی نظام اور دیگر فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کا اعلان کیا تاکہ یوکرین روس کے مسلسل میزائل حملوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے باوجود ماسکو کی طاقت کا یوکرین مقابلہ نہیں کر پا رہا اور یوکرین کے لئے اپنے اہم ایٹمی پاور اسٹیشنوں کا تحفظ بھی ممکن نہیں۔ اِن جوہری بجلی گھروں سے یوکرین کے لوگوں کو بجلی اور گرم پانی فراہم ہوتا تھا جس کا نظام مفلوج کر دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو پانی اور بجلی سے محروم کر کے نفسیاتی دباؤ میں ڈالا جا سکے اور موسم سرما میں ان کی زندگیوں کو دکھی بنایا جا سکے۔ روس کو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور ایک خودمختار ملک کے حصوں پر قبضہ کرنے کی وجہ سے ’بین الاقوامی تنقید‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا روس اور یوکرین کی جنگ ختم ہو سکے گی۔ کیا روس کے مقابلے یوکرین کا فوجی توازن بڑھایا جا سکتا ہے اور کیا یوکرین کریمیا سمیت اپنے اُن تمام حصوں پر دوبارہ قبضہ کر لے گا جو روس نے طاقت کے زور پر اُس سے چھینے ہیں۔
یوکرین میں جنگ کی انسانی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ نو مہینوں میں دونوں طرف سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ روس ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہا جب اُس نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ روس یوکرین میں افغانستان جنگ اور اپنی دس سالہ فوجی مداخلت سے زیادہ جانی نقصان پہنچا چکا ہے۔ اِس جاری جنگ کے اربوں ڈالر کے فوجی اخراجات کے ساتھ ساتھ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے نقصانات ایک ایسی تلخ حقیقت ہے‘ جس نے یوکرین کی بحالی کو بہت مہنگا بنا دیا ہے اور جنگ میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ اِس کی تباہ کاریاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ ماسکو اب بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ مذاکرات کرکے اور کیف کے نیٹو میں شامل نہ ہونے کی ضمانت حاصل کرکے اپنے علاقائی فوائد برقرار رکھ سکتا ہے۔ کریمیا اور اس یوکرین کے مشرقی حصے میں چار علاقوں پر روسی قبضے کو قانونی حیثیت دے کر ایک غیر جانبدار یوکرین ماسکو کے لئے قابل قبول ہوگا لیکن ایسا یوکرین کے عوام‘ حکومت اور مغربی ممالک کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ یقینی طور پر جنگ بندی اور اس کے نتیجے میں سال دوہزارچودہ سے یوکرین کے زیر قبضہ علاقوں سے روسی افواج کے انخلا کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ سفارت کاری‘ ثالثی اور بیک چینل مذاکرات روس اور یوکرین کے تنازع کو بڑھنے سے روک سکتے تھے لیکن متعلقہ فریقوں کی جانب سے اٹھائے گئے غیر سنجیدہ مؤقف کی وجہ سے بحران اِس حد تک بڑھا کہ آخر روس نے حملہ کر دیا۔ یوکرین نے روس سے مذاکرات اور جنگ کے علاوہ کسی بھی حل کو مسترد کر دیا ہے اور ماسکو اس بات پر قائم ہے کہ وہ کریمیا سمیت روسی بولنے والے علاقوں کو خالی نہیں کرے گا۔
روس کو یوکرین میں اپنی شکست واضح دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اُس پر عائد ہونے والی بین الاقوامی پابندیاں اِس کی ترقی اور معاشرت کو دبوچے اور روکے ہوئے ہیں۔ اب تو یوں لگ رہا ہے کہ روس یوکرین جنگ صرف اُسی صورت ختم ہو گی جب اِن دونوں میں سے کسی ایک فریق کا وجود ختم ہو گا جس کا مطلب ہے کہ یا تو یوکرین ہتھیار ڈال دے یا پھر پیوٹن کی حکومت بدل جائے اور اگر ایسا ہوا تو اندیشہ (امکان) ہے کہ عالمی نظام عدم جو پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے مزید مشکلات سے دوچار ہو جائے گا۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے پائیدار امن کی جس میں بالخصوص ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر مونس احمر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)