ہونہاروں کی پرورش

پاکستان کی آبادی قریب 23 کروڑ اور یہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً چالیس لاکھ بچے ہائی سکول (نویں اور دسویں کلاسز) میں زیرتعلیم ہیں۔ باصلاحیت اور ذہین قوم ہونے کا عالمی پیمانہ یہ ہے کہ کسی ملک کی 2فیصد آبادی ذہین ہونی چاہئے اِس کسوٹی کے مطابق پاکستان میں زیرتعلیم طلبہ میں سے ایک لاکھ (نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ) کو غیر معمولی طور پر باصلاحیت ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کی بڑی تعداد سکولوں سے وابستہ نہیں ہے۔ حکومت کے زیر انتظام سکول روٹ لرننگ پر مبنی ہیں اور زیادہ تر اوسط درجے کی تعلیم فراہم کرتے ہیں جبکہ ایسے طلبہ میں سے صرف چند کے پاس نجی سکولوں میں جانے کے لئے مالی وسائل ہوتے ہیں جنہیں بین الاقوامی معیارات کے مطابق تعلیم مل رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہونہار بچوں کی صحیح پرورش نہیں کر رہا اور نہ ہی بچوں کو اُن کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہونہار بچوں میں کم عمری ہی سے سرمایہ کاری کی جائے اور انہیں بہترین سے بہترین تعلیم دی جائے۔ اِس سلسلے میں ایک مناسب مثال روس کی ہے جس نے پچھلی دہائیوں کے دوران بہت سے نامور سائنسدان‘ ریاضی دان اور انجینئرز پیدا کئے ہیں۔ جب سابق سوویت یونین کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جھونک دیا گیا تو اس کی سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں قدیم تھی اور یہی ایک بڑی وجہ تھی کہ اِن کو جنگوں میں بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب کے ساتھ ملنا ملک کے لئے ایک وجودی معاملہ بن گیا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے 1960ء کی دہائی کے اوائل سے ملک بھر میں ہونہار طلبہ کے لئے فزکس‘ ریاضی کے بورڈنگ سکولوں کے ساتھ ساتھ ڈے سکولز بھی قائم کئے گئے جس نے ملک کو ممتاز ریاضی دان‘ سائنسدان اور انجینئرز دیئے۔  ایران میں بھی نیشنل آرگنائزیشن فار ڈویلپمنٹ آف ایکسپشنل ٹیلنٹ کا قیام 1976ء میں کیا گیا۔ یہ تنظیم اس وقت ملک بھر میں تقریباً ایک سو مڈل سکول اور ایک سو ہائی سکول چلاتی ہے اور تقریباً تمام مشہور ایرانی سائنسدان‘ محققین اور ماہرین تعلیم اِنہی سکولوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ پہلی خاتون جنہوں نے ریاضی میں فیلڈ میڈل حاصل کیا (ریاضی کے نوبل انعام کے برابر) پروفیسر مریم مرزاخانی ہیں‘ جو اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں وہ بھی انہی میں سے ایک سکول کی گریجویٹ تھیں۔ اِن سکولوں کی وجہ سے ایران دفاع اور دیگر کئی شعبوں میں عالمی معیار کی ٹیکنالوجی کو مقامی طور پر تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔امریکہ میں ہونہار بچوں کے سکولوں کو میگنیٹ سکول کہا جاتا ہے اور یہ 1960ء کی دہائی کے آخر سے کام کر رہے ہیں۔ متعدد عالمی رہنما ان میگنیٹ سکولوں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں اور ایک قابل ذکر مثال سائنس سکول کی ہے جس نے آٹھ نوبل انعام یافتہ افراد کے ساتھ دیگر غیر معمولی افراد پیدا کئے ہیں۔ جو قومیں اپنا آج بناتی ہیں اُن کا مستقبل سرخرو ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے یہاں بھی ٹیلنٹ (اہلیت) کی قطعی کوئی کمی نہیں ہے لیکن آگے بڑھنے کے مواقع محدودہیں جبکہ ضرورت کم مراعات یافتہ طبقات کو اُوپر اُٹھانے کی ہے اور اِس سلسلے میں گنتی کے غیرمنافع بخش اور غیر سرکاری ادارے نمایاں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں جو ریاضی اور سائنس کے مضامین میں بچوں کی صلاحیتوں کو خصوصی طور پر تیار کر رہے ہیں اور یہ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نمایاں نتائج فراہم کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ابتدائی کامیابیاں ملک کے بچوں کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتی ہیں کہ اگر انہیں صحیح وقت پر سیکھنے اور سبقت حاصل کرنے کے مواقع دیئے جائیں اور تعلیم و تربیت کا ایک سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو اِس سے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں بہتر نتائج دے رہے ہیں اور اگر اِنہیں جدید سائنس اور جدید ریاضی کو سمجھنے میں مدد دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بڑا نام کمائے گا اور چند اداروں کی دیکھا دیکھی دیگر تعلیمی ادارے بھی ایسے طلبہ پیدا کریں گے جو مثالی کام سرانجام دیں گے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں گے۔ پاکستان میں طلبہ کی صلاحیتوں کو‘ اگر تعلیم کے مختص اداروں کے ذریعے مناسب طریقے سے پروان چڑھایا جائے‘ تو یہ ملک کے لئے بہت زیادہ اہمیت پیدا کر سکتے ہیں اور پاکستان کی تیئس کروڑ آبادی جو اِس وقت حکومت کو بوجھ اور بڑی ذمہ داری محسوس ہو رہی ہے معنوی طور پر حقیقی اثاثہ بن جائے گی۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے اقدامات کی کمی ہے اور تعلیم کے شعبہ میں جدت لانے کیلئے جو پالیسی ضروری ہے اس کا فقدان نظر آرہا ہے خاص کر نوجوان نسل کو جدید ٹیکنالوجی کے شعبہ میں مہارت دلوانے کیلئے جو ڈھانچہ چاہئے اس کی مؤثر انداز میں تشکیل کے حوالے سے مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا میں ہمارے سامنے جن ممالک کی مثالیں موجود ہیں ان میں چین کیساتھ ساتھ سنگا پور، ملائشیا  اور انڈونیشیا قابل ذکر ہیں جنہوں نے تعلیم میں سرمایہ کاری کرکے دنیا بھر سے سرمایہ کاروں کو اپنے ملک کی طرف راغب کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ ترقی کی بلندی پر جا پہنچے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جمال ناصر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)