پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج اِس کی گرتی ہوئی معیشت ہے جو اصلاح و درستگی کا منتظر ہے۔ دو ماہ سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے چارج سنبھالا ہے اور تب سے ہر دن معاشی حالات میں بہتری آ رہی ہے۔ حالیہ اقدام میں ’شرح سود‘ مزید ایک فیصد اضافہ کرنے کے بعد کراچی کے سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں تقریباً دو فیصد کی گراوٹ نے نہ صرف وزیر خزانہ کی توقعات کے برعکس نتیجہ ظاہر کیا ہے۔ مالی بدانتظامی کا معاملہ پاکستان کی انتہائی پریشان حال معیشت کے لئے زیادہ بُری خبر ہے جسے درست کرنے کی ہر کوشش کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر ناکام ہو رہی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بھر پورکوششوں کے باوجود پاکستانی روپے کی قدر کو بہتر بناتے ہوئے اِسے کم از کم 200 روپے تک لے جانے کی کوشش میں کامیابی نہیں ہوئے ہیں اور افراط زر کی شرح تیس فیصد سے کم رہنے‘ غیر ملکی ذخائر کا دباؤ اور مجموعی قومی بجٹ خاص طور پر رواں سال کے تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصانات کے بعد‘ پاکستان کو ’غیرمعمولی اقتصادی ایمرجنسی‘ کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت دگرگوں معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے مل بیٹھتی ہے تو معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے صرف اُسی صورت جبکہ معیشت کی بہتری اِن کی پہلی ترجیح ہو اور جب کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ ہو رہا ہے تو اِس سے سیاسی عدم استحکام حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستان کے معاشی چیلنجوں سے جڑے تین اہداف تیزی سے پورے کرنے ضروری ہیں اور اِس سلسلے میں ہوشیاری سے تیار کی گئی اِقتصادی ایمرجنسی کو بنیاد بننا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ گرتی ہوئی معیشت کو ٹھیک کرنا شروع کیا جائے۔ اگرایسی متفقہ اور تمام بڑی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنائی جائیتو اِس طرح سے معیشت کو ٹھیک کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کے ساتھ‘ ہر سیاسی جماعت اپنے موقف پر ڈٹی ہوئیہے اور یہی وجہ ہے کہ کہ بار بار معاشی اصلاحات تو وضع کی جاتی ہیں لیکن اِن کے حصول کے لئے پیش رفت نہیں ہوتی۔ متبادل طور پر‘ ایک نیا فریم ورک جو کہ اصلاحی پروگرام کی قیادت کرنے کے لئے متعصبانہ سیاست سے الگ ہو‘ واحد قابل عمل آپشن ہے لیکن یہ کس طرح تشکیل پائے گا اور سب کے لئے یکساں قابل قبول بھی ہوگا یہ سوال اپنی جگہ ایک مخمصہ ہے لیکن معاشی بہتری کے چیلنج کو بہرحال قبول کرنا ہے کیونکہ اِسے نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے مسائل و مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا اور آنے والے وقتوں میں پاکستان کے معاشی حالات مزید خراب ہونے کے امکانات بھی ہیں جو مستقبل قریب کے لئے عدم استحکام کی صورتحال کے لئے مزید پریشانی کا باعث ہوں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاشی اصلاحات اُس وقت تک کامیابی کے ساتھ مکمل نہیں ہو سکتیں جب تک کہ بجٹ کا خسارہ ختم نہ ہو۔ حکومت کو اخراجات کا حق تبھی ہے جبکہ یہ آمدنی بھی رکھتی ہو۔ بصورت دیگربیرونی قرضوں میں اضافہ ہوگا۔ توجہ طلب ہے کہ بہت سے سرکاری ادارے (پبلک سیکٹر کارپوریشنیں) قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور اِس بوجھ کو جس قدر جلد اُتارا جائے اُسی قدر بہتر ہوگا۔سرکاری ملکیت والی پی آئی اے سے لے کر کراچی کی غیر فعال اسٹیل ملز اور ریلویز تک‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی خراب اور اُن کا مالیاتی بوجھ ہر دن بڑھ رہا ہے۔ درحقیقت خسارے میں چلنے والے یہ ادارے پاکستان کی خوشحالی اور معاشی استحکام کو کھا رہے ہیں۔
پاکستان کو ایک ذمہ دار ملک اُور ایک مستحکم معیشت بنانے کے لئے سخت فیصلوں اُور سخت کاروائیوں کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)