ترقی یافتہ دنیا میں‘ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو معاشرے کی تعمیر میں کلیدی معمار سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ سماجی اور اقتصادی ترقی میں اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے مطلوبہ علم اور ہنر کی تخلیق اور اسے فروغ دیتے ہیں۔ یونیورسٹیاں (جامعات) علم کے فروغ‘ تعلیم کے وسائل کو متحرک کرنے اور متنوع آبادیوں کو سیکھنے کے مواقع فراہم کرنے کی منفرد صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ یونیورسٹیاں ثانوی سکولوں کے نوجوان طلبہ کو تعلیم دینے سے لے کر مختلف پس منظر کے سیکھنے والوں کو اعلیٰ تعلیم میں داخل ہونے کی ترغیب دینے کے لئے بنیادی تبدیلی کی محرک قوتیں ہوتی ہیں اور اِن کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف عمر اور مراحل ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں زندگی بھر سیکھنے کے عمل کو فروغ دینے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کی حقیقی شراکت کا بہت ہی کم یا غیرمناسب احساس کیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ’قوم سازی‘ کے اِن اہم اداروں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ اپنی بقاء کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پورے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو مالی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ان اہم اداروں کو درپیش چیلنجز یقینا مقامی سیاق و سباق سے ثالثی کر رہے ہیں‘ جو ترقی کی سطحوں اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات‘ مروجہ سیاسی ثقافتوں‘ ادارہ جاتی صلاحیتوں اصلاحات اور دیگر محرکات سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ قارئین یہ سوچیں کہ آزاد جموں و کشمیر کی جامعات کو پاکستان کی یونیورسٹیوں سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں صوبوں کے زیرکنٹرول (پروانشیل سبجیکٹ) ہیں اور صوبے اپنی اپنی یونیورسٹیوں کے مالی استحکام کے لئے ضروری وسائل مختص کر رہے ہیں لیکن آزاد جموں و کشمیر میں یہ صورتحال بالکل مختلف ہے۔ آئیے ہم اِس بڑی اور قدیم یونیورسٹی آزاد جموں و کشمیر کی مثال (بطور کیس اسٹڈی) لیتے ہوئے اِس ادارے کو درپیش مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 1980ء میں اپنے قیام کے بعد سے‘ یونیورسٹی آف آزاد جموں اینڈ کشمیر نے ریاست کے نوجوانوں کو معیاری اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اِس دوران طویل سفر بھی طے کیا ہے جس سے قومی یونیورسٹیوں میں اِسے نمایاں مقام حاصل ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست کی سب سے قدیم یونیورسٹی جس میں آٹھ ہزار سے زیادہ طلبہ ہیں اس وقت کئی وجوہات کی بنا پر شدید مالی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ سال دوہزارنو تک‘ آزاد کشمیر کشمیریونیورسٹی خطے میں اعلیٰ تعلیم کا واحد ادارہ تھا لیکن بعد میں چار نئی آزاد یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)‘ یونیورسٹی آف کوٹلی‘ یونیورسٹی آف پونچھ‘ راولاکوٹ اور ویمن یونیورسٹی باغ و دیگر متعدد کالج قائم ہوئے۔ جس کی وجہ سے اِس مرکزی یونیورسٹی پر دباؤ کم ہوا اور ساتھ ہی اِس کی آمدنی بھی نمایاں حد تک کم ہو گئی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتیں اپنے صوبوں میں جامعات کو باقاعدہ مالی امداد فراہم کر رہی ہیں تاہم آزاد جموں و کشمیر کی حکومت جو پہلے آزاد جموں کشمیر یونیورسٹی کو سالانہ ساٹھ لاکھ روپے جیسی معمولی گرانٹ فراہم کر رہی تھی‘ نے اپنی مالی مجبوریوں کی وجہ سے اسے گھٹا کر 35لاکھ روپے کر دیا۔ یہ معمولی رقم یونیورسٹی کے تدریسی شعبہ کو چلانے کے لئے بھی ناکافی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یونیورسٹی کے چار مرکزی کیمپس میں سے دو جہلم ویلی کیمپس اور نیلم ویلی کیمپس لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب بھارتی فائرنگ سے متاثرہ علاقوں میں واقع ہیں جہاں ماضی میں ’ایل او سی‘ کے پار سے گولہ باری ہوتی رہی ہے۔ نہ صرف سرحدی باشندوں کو بے گھر کیا بلکہ مقامی آبادی کی معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے جس سے طلبہ میں فیسوں کی ادائیگی کی صلاحیت کمی ہوئی ہے۔ سال دوہزارپانچ کے تباہ کن زلزلے کے بعد‘ جس نے مظفر آباد میں یونیورسٹی کے پورے ڈھانچے کو تباہ کیا۔ یونیورسٹی کا ایک نیا اور جدید ترین کیمپس کنگ عبداللہ کیمپس بنایا گیا یہ سعودی حکومت کی فراخدلانہ مالی امداد سے تعمیر ہوا ہے۔ کیمپس جو اب مکمل طور پر فعال ہے کی وجہ سے یونیورسٹی کے آپریشنل اور دیگر اخراجات میں اضافہ ہوا ہے لیکن آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔ یونیورسٹی کے تعلیمی اخراجات میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا حصہ بھی دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ چند سال پہلے تک ’ایچ ای سی‘ مذکورہ یونیورسٹی کے اخراجات کا تیس سے 35فیصد ادا کرتا تھا جو اب کم ہو کر پندرہ فیصد رہ گیا ہے لہٰذا یونیورسٹی کی مجموعی آمدنی بتدریج کم ہو رہی ہے جبکہ اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ جس سے ادارے کی مالی صحت متاثر ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کی پہلے سے ہی کمزور مالی صحت میں مزید بگاڑ آیا ہے۔ ریاست گیر لاک ڈاؤن کے دوران یونیورسٹی کی بندش‘ سمسٹر سیشن بند ہونے کی وجہ سے آمدنی میں کمی اور وبائی امراض کے خلاف حفاظتی اقدامات پر اضافی اخراجات نے یونیورسٹی کے مالی وسائل کو نچوڑ کے رکھ دیا ہے اور انہیں معاشی بحران میں ڈال دیا ہے نیز یونیورسٹی کے قیام کے وقت جو ملازمین بھرتی کئے گئے تھے وہ اب ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ چکے ہیں یا ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن یونیورسٹی کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ انہیں پنشن اور ریٹائرمنٹ کے موقع پر دیگر مالی فوائد ادا کر سکیں۔ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی اُن لوگوں کے لئے ’سافٹ ٹارگٹ‘ بھی ہے جو اپنے بے بنیاد الزامات‘ میڈیا ٹرائلز اور بدنیتی پر مبنی مہمات کے ذریعے ذاتی مفادات کے لئے یونیورسٹی کے اعلیٰ افسران کی کردار کشی کرتے ہیں اور یہ عمل مسلسل جاری ہے اور اِس سے بھی یونیورسٹی کی آمدنی میں کمی آئی ہے‘ جو پہلے سے موجود مالی بحران کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے۔ ان مشکل حالات کے باوجود‘ رواں تعلیمی سال کے دوران دس ہزار سے زیادہ طلبہ نے 78ڈگری پروگراموں میں داخلہ لیا ہے جو بی ایس سے پی ایچ ڈی تک کے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں پچاس فیصد سے زیادہ طالبات بھی اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی اور ریاستی حکومتیں آزاد جموں و کشمیر کی پبلک سیکٹر (سرکاری) یونیورسٹیوں کو ان کثیر الجہتی چیلنجوں سے نجات دلانے کے لئے فوری اور ٹھوس تدارک کے اقدامات کریں اور ان اداروں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں جو دراصل ریاست کا مستقبل ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مبشر نقوی۔ ترجمہ: اَبوالحسن)اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام