بالآخر موسمیاتی انصاف 

مصر کے ’شرم الشیخ‘ شہر ’COP27 اجلاس‘ ہوا جس میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہوئے نقصانات سے نمٹنے میں مدد کے لئے ’فنڈ‘ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے ہونے والا نقصانات کے ازالے کے لئے انسانیت اور کرہئ ارض کے لئے امید کا اشارہ ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اثرات زیادہ بار بار اور شدید ہو گئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے کرہئ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ تیس سالوں سے‘ سب سے زیادہ کمزور ممالک نے اِس قسم کے فنڈ کے لئے سرمایہ دار ممالک پر دباؤ ڈالا ہے جس کے ذریعے وہ لوگ جنہوں نے عالمی کاربن کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے‘ متاثرہ ممالک کو موسمیاتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگر نتائج‘ جیسا کہ سمندر کی سطح میں بلندی‘ خشک سالی‘ سمندری طوفان اور سیلاب سے بحالی میں مدد کر سکتے ہیں۔ ’گروپ آف 77‘ اور چین کے سربراہی میں ترقی پذیر ممالک کے اتحاد نے جون میں COP27کی تیاریوں میں مالی امداد کی سہولت پر بحث کی تجویز پیش کی تھی لیکن اِس مسئلے کو کانفرنس کے ایجنڈے پر رکھنے کے لئے حسب توقع سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ رواں سال پاکستان میں آنے والے سیلاب نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی آفات بڑھ رہی ہیں اور اِن کی شدت بھی غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے۔ پاکستان میں آئے حالیہ سیلاب سے ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ لاکھوں بے گھر ہیں تیرہ ہزار کلومیٹر سڑکیں بہہ گئی ہیں۔ بیس لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ پانچ سو پل اور پچاس لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور ملک کا ایک تہائی حصہ اب بھی زیرآب ہے۔ میرا آبائی صوبہ سندھ سب سے زیادہ سیلاب سے متاثر اور تباہ ہوا ہے۔ سیلاب سے ہوئے نقصانات کے پیمانہ کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے کی آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی بین الاقوامی مالیاتی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ نائیجیریا میں آنے والے سیلابوں‘ افریقہ میں خشک سالی اور بحرالکاہل و کیریبین کے سمندری طوفانوں کی تباہی نے موسمیاتی انصاف کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے اور دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے ترقی پذیر ممالک کے عزم کو تقویت دی ہے۔ پاکستان نے COP27 کے بعد ہونے والے مذاکرات میں ترقی پذیر ممالک کی قیادت کی تاکہ امدادی فنڈ بنانے کے لئے عالمی طاقتوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ پاکستان اس سلسلے G77 ممالک کی نمائندہ تنظیم کی یک جہتی کو سراہتا ہے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک بشمول یورپی یونین کے ساتھ امریکہ کی طرف سے تجویز کی منظوری کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ترقی پذیر چوبیس ممالک کی عبوری کمیٹی فوری کام کی منتظر ہے تاکہ فنڈ کے لئے ادارہ جاتی انتظامات‘ ڈھانچے‘ گورننس اور شرائط کو حتمی شکل دی جا سکے۔ انہیں نئے ترقیاتی منصوبوں کی بھی وضاحت کرنی چاہئے تاکہ مالی اعانت کے ذرائع کی شناخت اور توسیع کی جا سکے۔ موجودہ انتظامات کے ساتھ ہم آہنگی اور تکمیل کو یقینی بنانے کا طریقہ بھی وضع ہونا چاہئے۔ کمیٹی کے لئے سب سے اہم کاموں میں سے ایک فنڈنگ کے پیمانے کی نشاندہی ہے جو آج کل موسمیاتی تبدیلی کے نتائج پورا کرنے کے لئے درکار ہے۔ ’آب و ہوا کے انصاف‘ کا پہلا امتحان سیلاب کی تباہی سے بحالی اور تعمیر نو اور مستقبل کی آفات کے خلاف تیاریاں کرنے کے لئے پاکستان کا ردعمل ہوگا۔ یہ منصوبہ جنوری 2023ء میں پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی مشترکہ طور پر بلائی جانے والی کانفرنس میں پیش کیا جائے گا۔ عالمی بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان کا تیس ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے اور اسے فوری طور پر بیرونی امداد کے لئے کم از کم ساڑھے سولہ ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی چونکہ سیلاب سے نقصانات کا عالمی فنڈ ابھی فعال ہونا باقی ہے‘ پاکستان کو توقع ہے کہ اس کی بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے کے لئے فنانسنگ صنعتی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں بشمول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں سے آئے گی۔ اس طرح کی مدد میں قرض کی ادائیگی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ نئے اسپیشل ڈرائنگ رائٹ یا ترقی یافتہ ممالک کے غیر استعمال شدہ قرضوں کی دوبارہ ترتیب‘ تعمیر نو کے منصوبوں کے لئے براہ راست مالی معاونت کے ساتھ ان منصوبوں کے لئے نجی سرمایہ کاری کا ڈھانچہ بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا اور عالمی جنوب میں دوست ممالک سے مالی امداد کی صورت اظہار یک جہتی کی بھی توقع رکھتا ہے۔گزشتہ ڈیڑھ سو برس کرہ ارض کا درجہ حرارت اوسطاً ایک اعشاریہ ایک ڈگری سنٹی گریڈ بڑھا ہے جو ’گلوبل وارمنگ‘ کا نتیجہ ہے اور اِس بدلتے ہوئے رجحان کی وجہ سے موسمیاتی اثرات تقریباً ناگزیر ہو چکے ہیں لیکن یہ دنیا کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھیں اور اِنہیں جلد از جلد محدود کرنے کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دیں۔ تشویشناک امر ہے کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے یا اِن سے نمٹنے میں مدد دینے کے لئے فنڈز فراہم نہیں کئے ہیں۔ COP26  اجلاس جو کہ گلاسگو میں ہوا‘ اُس میں موسمیاتی مالیات کو ’کم از کم دوگنا‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ضرورت ہے کہ اُس فیصلے کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔ COP27 اجلاس میں پاکستان نے اس فیصلے پر فوری عمل درآمد کی تجویز پیش کی۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے سال متحدہ عرب امارات میں COP28 کانفرنس ہوگی جس میں موسمیاتی موافقت کے لئے عالمی مالیاتی امداد کے لئے طریقہ کار وضع کیا جائے گا اُور دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے نقصانات پر افسوس کا اظہار ہی نہیں کرے گی بلکہ اُنہیں اِس مشکل سے نکلنے میں بھی ہر ممکنہ مدد فراہم کرے گی۔  سب سے اہم بات یہ ہے کہ سال دوہزارنو سے سالانہ ایک سو ارب ڈالر موسمیاتی امداد (فنانس) میں جمع کرنے کے وعدے کئے گئے لیکن یہ وعدے پورے نہیں ہوئے۔ ترقی یافتہ ممالک کو چاہئے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی امداد کے اپنے عزم کو فوری طور پر پورا کریں اور COP28 یعنی آئندہ اجلاس تک 100 ارب ڈالر ’موسمیاتی فنانس‘ میں جمع کریں تاکہ دنیا کو اِس مشکل سے نکالا جا سکے۔ بلاشبہ حتمی مشترکہ مقصد گلوبل وارمنگ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ علاوہ ازیں دنیا کو اُن خطرات و محرکات (ٹپنگ پوائنٹس) سے بھی بچنا ہے‘ جن کی آب و ہوا کے ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے برس میں موسمیاتی تبدیلیاں عالمی تباہی کا باعث بنیں گی۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر صنعتی ممالک پر چھوڑ دی گئی ہے جنہوں نے گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں نام نہاد ”کاربن بجٹ“ کا دو تہائی حصہ استعمال کیا ہے۔ بجٹ کا بقیہ ایک تہائی وہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے درکار ہوگا۔ بدقسمتی سے COP27 میں یہ واضح ہوا ہے کہ صنعتی ممالک نے ان تخفیف کے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا جن پر انہوں نے گلاسگو میں اتفاق کیا تھا اور عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور کرہ ارض کا درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ تک کم کرنے کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا‘ جو کسی ایک ملک نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ رواں سال چین ”گروپ آف 77“ کی سربراہی کی اپنی مدت ختم کر رہا ہے۔ دسمبر کے وسط میں نیویارک شہر میں ترقی پذیر ممالک کی وزارتی کانفرنس میں عالمی اہداف اور موسمیاتی اہداف کو آگے بڑھانے پر غور ہوگا اور حتمی کوششوں کا تعین کیا جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نیویارک میں مذکورہ میٹنگ (آئندہ اجلاس) پاکستان جیسے گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی امداد ایجنڈے کا حصہ ہوگی جو موسمیاتی انصاف کے منتظر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)