جمہوریت کے اخراجات

جمہوری پارلیمانی طرز حکمرانی میں اسمبلی اجلاسوں کا شمار خاصا اہم ہوتا ہے اور اِسی کی بنیاد پر قومی و صوبائی فیصلہ سازی کے معیار اور اِس کے لئے کی گئی مشاورت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ سات ماہ سے جاری ہے۔ اگرچہ اسے چالیسویں‘ اکتالیسویں اور بیالیسویں اجلاسوں (سیشنز) میں تقسیم کردیا گیا ہے لیکن اِن سیشنز کے درمیان صرف ایک دن کا وقفہ ہے جو اسے عملی طور پر اسمبلی کا ایک ہی طویل سیشن بناتا ہے۔  اس سے قبل اسی اسمبلی نے دو متوازی بجٹ اجلاس منعقد کروائے تھے جس کی لاگت ایک عام سیشن پر آنے والی لاگت سے تقریباً دوگنی تھی۔جمہوریت ایک مہنگا نظام ہوتا ہے کیونکہ اس میں وقتاً فوقتاً انتخابات کروانے پڑتے ہیں‘ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں اور مقامی منتخب حکومتوں کو برقرار رکھنا ایسا کام ہے جس میں کافی سرمایہ خرچ ہوتا ہے لیکن یہ اخراجات جائز ہیں۔ اگر جمہوری اداروں کا جمہوری طریقے سے ہی انتخاب ہو اور انہیں دیانتداری اور بہتر کارکردگی جیسے حقیقی جمہوری اقدار کے تحت چلایا جائے تو جمہوری نظام کی قیمت کچھ زیادہ نہیں لیکن اگر اس نظام میں جمہوری اصولوں کا غلط استعمال یا ان کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے تو یہی جمہوری نظام مالی بوجھ کی صورت اختیار کرنے لگتا ہے۔۔ ایک پارلیمانی سال کے دوران جتنے دن پارلیمان کو سیشن میں رہنا ضروری ہوتا ہے ان کی کم از کم تعداد مخصوص ہے۔ قومی اسمبلی کم سے کم 130دن‘ سینٹ 110دن اور صوبائی اسمبلیاں 100دن اجلاس منعقد کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔ آئین اِس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ اسمبلی اجلاس کے دوران 2 دنوں کی چھٹی کو بھی اجلاس کے دورانیے میں شمار کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلی اجلاس حقیقتاً اتنے دن ہوتا نہیں جتنے دن بتایا جاتا ہے۔ اس کی مثال پنجاب اسمبلی کا اکتالیسواں سیشن ہے جس کا اجلاس صرف پینتیس دن ہوا لیکن وقفوں سمیت اس سیشن کو ایک سو ستائیس دن گنا گیا۔ ایک اور نکتہ  یہ ہے کہ پاکستانی اسمبلیوں میں کام کا ایک دن اوسطاً تین گھنٹے ہوتا ہے جو کسی بھی معیار کے مطابق ناکافی ہے۔ بھارتی لوک سبھا دن میں چھ گھنٹے کام کرتی ہے اور برطانوی دارالعوام دن میں تقریباً آٹھ گھنٹے کام کرتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ قومی اسمبلی طے شدہ ایجنڈے یا ’آرڈر آف دی ڈے‘ کو بمشکل اوسطاً چالیس فیصد ہی پورا کر پاتی ہے۔ منتخب نمائندگان کی ایوان میں غیر موجودگی کے باعث کاروائی ملتوی کرنا معمول بنتا جارہا ہے۔ سال 2022-23ء میں قومی اسمبلی اجلاس کے لئے چار کروڑ ستر لاکھ روپے مختص کئے گئے جبکہ سینیٹ اجلاس کے لئے تین کروڑ چالیس لاکھ روپے مختص کئے گئے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے لئے تین کروڑ ستر لاکھ‘ سندھ اسمبلی کے لئے دو کروڑ نوے لاکھ‘ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے ایک کروڑ اَسی لاکھ جبکہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے لئے دو کروڑ تیس لاکھ روپے بجٹ مختص کیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دن کا نقصان کرنے یا ایجنڈا مکمل نہ کرنے کی ٹیکس دہندگان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے میں منعقد ہونے والے عام اور ضمنی انتخابات میں تقریباً آٹھ سے نو کروڑ روپے کی لاگت آتی ہے۔ اتنے اخراجات کے باوجود پچھلے آٹھ عام انتخابات میں اوسط ووٹر ٹرن آؤٹ پنتالیس فیصد رہا جو دنیا میں کم ترین ووٹر ٹرن آؤٹ ہے۔ دنیا بھر میں اوسط ووٹرز ٹرن آؤٹ چھیاسٹھ فیصد ہے۔ میں یہ بات ہرگز نہیں کہہ رہا کہ جمہوری نظام کو اِن اخراجات کے باعث ترک کردینا چاہئے بلکہ میں یہاں عوام‘ سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندگان سے گزارش کررہا ہوں کہ وہ اپنی جمہوری آزادی اور حقوق کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ کریں اور اپنے فرائض بہتر انداز میں سرانجام دیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اے بلال محبوب۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)