شیخ مجیب الرحمن کی نظر میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی دوستی سب سے اور بغض کسی سے نہیں کے اصول پر کاربند ہونی تھی۔ان کی صاحبزادی اور بنگلہ دیش کی موجودہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد بھی کئی بین الاقوامی فورمز پر اس بات کا اعادہ کرچکی ہیں لیکن جب پاکستان کے ساتھ خارجہ تعلقات کی بات آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی اس اصول کو نظر انداز کردیتی ہے۔ ان کے والد نے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے اپریل 1974 کے سہ فریقی معاہدے میں ماضی کو بھلا کر ایک نیا آغاز کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن لگتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے لئے یہ کام مشکل ہے۔شیخ مجیب نے فروری 1974 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی سال جون میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت دونوں ممالک کی قیادت کے ارادے بالکل واضح تھے، وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد سے کئی پاکستانی حکمران بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے ہیں۔2002 میں صدر مشرف نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا،مگر اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ عوامی لیگ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے لیے اچھے جذبات رکھتا ہے۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش کی پالیسیوں میں ایک مجبوری اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے کیونکہ اس کے 3 طرف بھارت ہے۔ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی بحالی میں یہی رکاوٹ ہے تو ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر نہیں ہوجاتے۔راقم نے حال ہی میں ہونے والے بے آف بنگال کنورسیشن میں شرکت کی تھی۔ وہاں ماضی کے واقعات کے حوالے سے کوئی بحث نہیں ہوئی۔ بنگلہ دیش کے تھنک ٹینکس کی توجہ اس بات پر ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی، چین کے بڑھتے معاشی اثرات اور امریکہ کی انڈو چائنا پالیسی کا خلیج بنگال پر کیا اثر پڑے گا۔ایک ایسے ملک کے شہری ہونے کے ناطے جس نے 1985 میں سارک کا منصوبہ پیش کیا تھا، بنگلہ دیش کے لوگوں کو تشویش ہے کہ کہیں اس خطے کو بھلا نہ دیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے سارک کے ایجنڈے کو ازسرِ نو ترتیب دیا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے ویسے بھی جنوبی ایشیا کا ہر ملک متاثر ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش معاشی اور سماجی ترقی کی ایک کامیاب مثال بن کر اُبھرا ہے اور یہ ملک 2031 تک اعلی متوسط آمدن والا ملک بننے کا عزم رکھتا ہے۔ 1991 میں بنگلہ دیش میں غربت 43.5 فیصد تھی جو 2016 میں 14.3 فیصد تک آگئی تھی۔ اس کی آبادی 17 کروڑ ہے جس میں ایک فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے جس میں 2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کورونا سے احسن طریقے سے نمٹا۔اب حال ہی میں توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے بنگلہ دیش کی معیشت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کا بحران شدید ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر اگست 2022 میں 38ارب 90 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے‘ حکومت نے بھی ایک بچت پروگرام شروع کردیا ہے۔بنگلہ دیش میں اگلے سال دسمبر میں انتخابات بھی شیڈول ہیں۔ اس بارے میں تشویش موجود ہے کہ یہ انتخابات آزاد اور شفاف ہوں گے یا نہیں۔ اس وقت عوامی مباحث کا موضوع یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو کس طرح چلایا جارہا ہے اور کیا یہ معاشی ترقی کی بلند شرح کو برقرار رکھ سکے گا۔”(بشکریہ ڈان، تحریر:اعزاز احمد چوہدری،ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام