پاکستان کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور یہ رویئے ہماری سیاسی روایت کا حصہ بن چکے ہیں جو عدم برداشت اور جمہوری اقدار کی پامالی کا باعث بھی ہیں جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح نہیں دیتے جبکہ حزبِ اختلاف کے لوگ اکثر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاسی رہنما کسی رائے پر متفق ہوں جیساکہ باہمی اتفاقِ رائے سے اٹھارہویں آئینی ترمیم اپنائی گئی لیکن پاکستان کی سیاست نے زیادہ تر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان شدید کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ہی دیکھا ہے۔یہاں ایسے سیاسی ماحول کا ہمیشہ فقدان ہی رہا جو مستحکم ہو اور جس کا مستقبل بھی بہتر نظر آئے‘ یہی چیز ملک کو درپیش گھمبیر مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنی۔ ان مسائل کو یا تو خود حل ہونے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا یا پھر ان کے حل کے لئے قلیل مدتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی غیر مستحکم سیاسی صورتحال ہے۔ حالیہ ’ہائبرڈ تجربے‘ نے فوج کو قومی معاملات میں غیر رسمی اور وسیع کردار ادا کرنے کا موقع دیا لیکن پھر بھی دیکھا جائے تو ملک میں دوہزارآٹھ کے بعد سے بلاتعطل جمہوری حکومتیں ہی رہی ہیں۔ اِس دوران جمہوریت کو مستحکم ہونا چاہئے تھا‘ سیاسی جماعتوں کو جمہوری روایات کے فروغ کے لئے کاوشیں کرنی چاہئے تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اِس طرح نہ صرف ریاستی اِداروں میں اختیارات کا توازن اور انہیں دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ہاتھ سے گیا بلکہ سیاست کو تیزی سے تبدیل ہوتی معاشی اور سماجی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کا موقع بھی ضائع ہوگیا۔ ان میں بڑھتی ہوئی شہرکاری‘ متوسط طبقے کی شرح میں اضافہ‘ متنوع اور متحرک سماج کا اُبھر کے سامنے آنا اور ٹیکنالوجی کی بدولت عوام میں شعور جیسی تبدیلیاں شامل ہیں۔ اِن تبدیلیوں کے بعد نئے سیاسی نظام کو وجود میں آنا چاہئے تھا لیکن یہ اب بھی اپنی پرانی حالت میں ہی ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی جملہ سیاسی جماعتیں بیانات تو خوب دیتی ہیں لیکن ان کے پاس کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر وہ ملک کو آگے لے کر چلنے کا دعویٰ کریں۔ یہ سیاسی حریف جو ایک دوسرے کو حکومت کرنے کے لئے نااہل قرار دیتے ہیں ان کی پالیسیاں ایک دوسرے سے کچھ خاص مختلف بھی نہیں ہیں۔ اس پورے معاملے کی عکاسی پاکستان کے مایوس کن معاشی ریکارڈ سے بھی ہوتی ہے۔ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو‘ معاشی معاملات پر سب کا مؤقف ایک جیسا ہی ہونا چاہئے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے بجٹ اور ادائیگیوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے اصلاحات کرنے اور اندرونی وسائل بڑھانے کے بجائے ان سب جماعتوں نے قرضے لینے کو ترجیح دی۔ سرد جنگ اور اس کے بعد ہماری خارجی پالیسی کی ترجیحات کی وجہ سے ہمیں جو بیرونی امداد ملی اس نے ہمارے اندر بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی عادت پیدا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت جو دیہات اور شہروں کی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے وہ معاشی اصلاحات‘ وسائل کی تقسیم اور اپنے بااثر حامیوں پر ٹیکس عائد کرنے سے گریز کرتی ہے۔ امداد یا قرضوں سے حاصل ہونے والی معاشی ترقی بالکل بھی بُری نہیں ہوگی اگر اس کے نتیجے میں ایسی اصلاحات نافذ ہوسکیں جن سے بنیادی معاشی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ ان میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا‘ معیشت کو دستاویزی بنانا‘ برآمدات بیس میں تنوع لانا اور سرمایہ کاری کی اس سطح کو فنانس کرنے کے لئے بچت کی حوصلہ افزائی شامل ہے جو اقتصادی ترقی کی اس شرح کو برقرار رکھ سکے اور جو آبادی میں اضافے کی شرح سے زیادہ ہو لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور بیرونی وسائل اور ترسیلات ِزر کی دستیابی کے باعث حکمراں اشرافیہ ہماری معیشت کے ساختی مسائل کو نظر انداز کرتی رہی۔ اس کے علاؤہ ہر حکومت نے ہی دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ حاصل کیا۔ معاشی انتظامات کے لئے امداد پر انحصار کیا جانے لگا جس نے ملک کی سول اور ملٹری قیادت کو موقع فراہم کیا کہ وہ ٹیکس اصلاحات جیسی ضروری معاملات ملتوی کردیں۔ یہ اصلاحات معیشت کو عملی اور پائیدار بحالی کے راستے پر لانے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھیں۔ چند مخصوص مواقعوں کے علاؤہ‘ مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت نے ہمیشہ معاشی معاملات سے نمٹنے کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جو انہیں آسان لگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ایک کے بعد دوسرے معاشی بحران کا شکار ہورہا ہے‘ ان جماعتوں کے پاس اِس سے نکلنے کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ (مضمون نگار برطانیہ‘ امریکہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)