پلاسٹک آلودگی: بڑا خطرہ

پاکستان کو پلاسٹک کے فضلے اور اس کی وجہ سے ہونے والی آلودگی جیسے ایک ’بڑے خطرے‘ کا سامنا ہے جو عوامی صحت‘ جنگلی حیات اور ماحولیات کے مستقبل کو تاریک بنا رہا ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اس آلودگی پر قابو پانے کے لئے فوری طور پر مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ پلاسٹک کے کم سے کم یعنی غیرضروری استعمال و انحصار کو روکنے کے لئے عوامی شعور میں اضافہ کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے مشترکہ ٹاسک فورس کے قیام‘ پلاسٹک پیدا کرنے والی صنعتوں کے لئے ماحول دوست معیارات‘ پلاسٹک اور کم معیار کی مصنوعات کے کچرے کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کے علاوہ لاکھوں ٹن پلاسٹک کے فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لئے اقدامات ضروری ہیں۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار پر عائد ٹیکس بڑھانے سے پلاسٹک کے فضلے کے بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں کئی ممالک نے سنگل یوز پلاسٹک آئٹمز کی تیاری‘ فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کرکے  مثال قائم کرچکیہیں جن میں کان کی کلیاں‘ غبارے کے لئے پلاسٹک کی چھڑیاں‘ پلیٹیں‘ برتن وغیرہ شامل ہیں۔ پلاسٹک کی آلودگی بنی نوع انسان کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھری ہے۔ یہ صحت کے سنگین خطرات پیدا کر رہی ہے اور ماحول کو تباہ کر رہی ہے۔ پلاسٹک آلودگی کا خطرہ مہلک ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک اگر پلاسٹک کے فضلے کو ٹھکانہ لگانے کے لئے مشترکہ کوششیں کریں تو اس بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے جس کے لئے مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دینی ہو گی۔  پلاسٹک کی پیداوار اور اس کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک آلودگی کے سنگین اثرات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ جس سے ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی کے مضر اثرات دونوں ممالک میں اپنے پنجے گاڑ رہے ہیں اور یہ شہری علاقوں میں مسائل پیدا کا باعث ہے۔ اِس کی وجہ سے نکاسیئ آب کے پائپ بند ہو جاتے ہیں اور بیماریاں پھیلتی ہیں جس سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہم زمین جاندار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ دیہی علاقوں میں پلاسٹک آلودگی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک آلودگی کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے کئی شہروں کا ویسٹ مینجمنٹ بھی یکساں بڑا چیلنج ہے۔ پلاسٹک کی پیداوار اور ان کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے لئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک اور اس کا فضلہ کرہئ ارض کے لئے ٹائم بم جیسے خطرناک ہیں کیونکہ جب پلاسٹک کو کسی کوڑے دان یا زمین دبایا جاتا ہے تو اُس سے میتھین گیس خارج ہوتی ہے اور یہ ماحول دشمن گیس ہے۔ موجودہ دور میں پلاسٹک سب سے اہم ماحولیاتی مسائل میں سے ایک بن گیا ہے جس کا کسی ملک نہیں بلکہ دنیا کو سامنا ہے اور اِس خطرے کی شدت و نوعیت کو سمجھنے کے باوجود ہر سال پلاسٹک کی طلب و استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس پلاسٹک کے فضلے کو پھیلانے میں پیکجنگ انڈسٹری بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔  مو مختلف مواقع پر پیکنگ اور پیکیجنگ کے لئے پولی تھین بیگز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماحول دوست طرزعمل یہ ہے کہ کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے استعمال کئے جائیں جو بار بار استعمال ہو سکتے ہیں اور اگر انہیں تلف بھی کیا جائے تو پلاسٹک کی نسبت کم وقت میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں پلاسٹک آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال تشویشناک ہے۔ کچھ ماہرین نے پلاسٹک کی مصنوعات کی جگہ ماحول دوست بائیو ڈیگریڈیبل اشیا ء کے استعمال کرنے کی تجویز دی ہے۔ پلاسٹک آلودگی کے بہت سے منفی اثرات ہیں۔ ملک کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی بارہ بڑے شہروں میں رہتی ہے۔ پلاسٹک سیوریج لائنوں میں پانی کی روانی کو روکتا ہے۔ اگر سیوریج لائنوں کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ زیرزمین صاف و میٹھے پانی کو بھی آلودہ کرتے ہیں یا نکاسیئ آب کے نظام کو جام کر دیتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں صحت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں پلاسٹک آلودگی کا براہ راست تعلق جانداروں کی صحت پر پڑتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں پلاسٹک آلودگی کی وجہ سے ندیاں متاثر ہوتی ہیں۔ پلاسٹک کی آلودگی فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے اور یہی آلودگی فضائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہے۔ ممکن ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں اور عوام کو پلاسٹک آلودگی کے خطرات کا مختصر مدت میں احساس نہ ہو لیکن جو ایک بات طے ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں پلاسٹک آلودگی کے مضر صحت اِس قدر زیادہ ہوں گے کہ اِس سے نمٹنے پر اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں اور یہ اربوں روپے آج ایک معمولی سی احتیاط اور اپنے طرز زندگی میں تبدیلی سے بچائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں پلاسٹک کے استعمال سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ دو سال قبل وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کے خلاف کاروائیوں کا آغاز کیا تھا لیکن رفتہ رفتہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی خرید و فروخت اور استعمال پھر سے ہونے لگا ہے‘ جو قابل تشویش ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: صنم جونیجو۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)