کیا نوجوان ووٹ دیں گے؟

سات دسمبر 1970ء کا تاریخی دن‘ جب ہر بالغ پاکستانی کو آئینی طور پر ’حق رائے دہی‘ دیا گیا یعنی وہ اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اہل ہوا اور اِسی تاریخی دن کی مناسبت سے ہر سال ’7 دسمبر‘ کا دن پاکستان میں ”قومی ووٹرز ڈے“ کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ عام انتخابات میں تمام اہل شہریوں کی طرف سے ووٹ ڈالنے کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا جاسکے؟ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 1970ء کے عام انتخابات کے بعد سے‘ پاکستان نے 48 سالوں میں 2018ء تک 10 عام انتخابات کا تجربہ کیا تاہم ان انتخابات میں ووٹنگ کی اوسط شرح پچاس فیصد ٹرن آؤٹ سے کم رہی۔ عالمی ووٹنگ کی شرح اوسط 76فیصد ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات میں اکسٹھ فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔ 1977ء‘ 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں ووٹرٹرن آؤٹ بیالیس فیصد اور پینتالیس فیصد جبکہ 1993ء کے عام انتخابات میں کم ہوکر 38فیصد رہ گیا۔ 1997ء کے عام انتخابات میں رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ اب تک کی کم ترین سطح (اب تک) چونتیس فیصد تک گر گیا تھا۔ اس کے بعد سے 2002ء میں ووٹرٹرن آؤٹ آہستہ آہستہ بڑھ کر 39فیصد’2008ء میں 43فی صد‘ 2013ء کے عام انتخابات میں 53 فیصد اور 2018ء کے حالیہ عام انتخابات میں پچاس فی صد رہا۔ اگر موجودہ قومی اسمبلی بارہ اگست 2023ء تک یعنی اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرتی ہے تو گیارہویں اور اگلے عام انتخابات اسمبلی کی میعاد ختم ہونے کے دن کے بعد ساٹھ دن کی مدت کے اندر اکتوبر 2023ء تک عام انتخابات ہوں گے۔ سال 2022ء میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 20 لاکھ (220ملین) سے تجاوز کر گئی ہے‘ اگر اگلے عام انتخابات میں بھی اسی طرح کی ووٹنگ کا رجحان دیکھا جاتا ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہل ووٹرز میں سے نصف یا قریب چھ کروڑ (ساٹھ ملین) آبادی‘ ووٹ نہ ڈالنے کا انتخاب کرتے رہیں گے۔ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد کے ووٹ ڈالنے سے گریز کرنے کے ساتھ‘ یہ جمہوری نظام میں سب سے بڑی پریشانی ہونی چاہئے؟ ہمارے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے نصف ووٹ نہ ڈالنے کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مرکزی دھارے کی سیاست کی معقول سطح کی تفہیم کے باوجود سیاسی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں؟ کیا غیر رائے دہندگان کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے پیغام سے لاتعلق ہیں؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ آبادی کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ان کے انفرادی ووٹ سے لاکھوں دیگر ووٹوں میں زیادہ فرق نہیں پڑتا؟ ان وجوہات میں سے ہر ایک کو مختلف رائے عامہ کے جائزوں ’ایگزٹ پولز اور غیر رائے دہندگان کی جانب سے فوکس گروپ ڈسکشن کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے تاہم سب سے بڑا مسئلہ جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہ ملک کے معاملات کو چلانے میں سیاسی عمل کا کردار ہے۔ یاد رکھنے کے لئے ایک اور اہم اعداد و شمار کا نقطہ نوجوان ووٹرز ہیں۔ گزشتہ سال الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس سال کی عمر کے نوجوان پاکستانی رجسٹرڈ ووٹرز میں پینتالیس فیصد سے زائد یا رجسٹرڈ ووٹرز میں سب سے بڑا گروپ ہیں اگرچہ الیکشن کمیشن کے ذریعے گزشتہ انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹرٹرن آؤٹ کا حساب لگانے کے لئے کوئی باضابطہ طریقہ کار موجود نہیں لیکن گیلپ پاکستان کی جانب سے گزشتہ انتخابات سے متعلق کئے گئے ایگزٹ پولز میں نوجوانوں کے ووٹرٹرن آؤٹ کا تخمینہ اکتیس فیصد لگایا گیا جو پہلے سے ہی مایوس کن قومی ووٹنگ اوسط سے بہت کم ہے! اگر نوجوان رجسٹرڈ ووٹروں کی بڑھتی ہوئی تعداد انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتی تو یہ ہماری پہلے سے ہی پریشان حال جمہوریت کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ سائنسی سروے کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کے مسائل کا خلاصہ کیا گیا ہے‘ جن میں معیاری تعلیم کی فراہمی‘ فائدہ مند روزگار اور فیصلہ سازی میں بامعنی مشغولیت وغیرہ شامل ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ووٹروں کی خواہشات پوری کرنے کے بارے میں ٹھوس منصوبہ بندی نہیں رکھتی۔ تعلیم کے شعبے میں بڑے پیمانے پر مسائل کے باوجود‘ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر نجی سکولوں اور کالجوں میں ضرورت سے زیادہ فیس ادا کرتے ہیں کیونکہ سرکاری شعبہ ان کی ضروریات کو پورا نہیں کر رہا۔ نوجوان خواتین ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کے محفوظ اور قابل اعتماد نیٹ ورک کی عدم موجودگی میں تعلیم حاصل کرنے اور روزانہ مشکلات سے بھرے ماحول کا مقابلہ کرتی ہیں۔ یکساں ضروری ذہنی صحت ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ چند خوش نصیبوں کو چھوڑ کر نوجوان کی بڑی تعداد بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سامنا کر رہی ہے۔ ہمارا انتخابی و سیاسی نظام ہر قدم پر نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے۔ چاہے وہ سیاسی بھول بھلیاں ہوں یا نوجوانوں کی آواز اور ووٹ کی طاقت سے غافل رہنا‘ سیاسی جماعتوں کو جملہ غلطیوں کے ازالے کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: آسیہ ریاض۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)