آزاد جموں و کشمیر: آگے کیا ہوگا؟

آزاد جموں و کشمیر میں تین مرحلوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کامیابی سے منعقد ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی  جماعتوں نے اِن انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور گھر گھر جاکر بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ پی ٹی آئی‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نواز) کے پاس آزاد کشمیر میں یکساں طور پر مؤثر پارٹی نیٹ ورک اور کارکن موجود ہیں لہٰذا اِن تمام جماعتوں نے معقول تعداد میں ووٹ یعنی مقامی کونسلوں میں نشستیں حاصل کیں۔ اسی طرح جموں و کشمیر پیپلز پارٹی‘ مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی نے بھی اپنے اپنے حمایتی حلقہ جات میں نشستیں حاصل کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد نے بھی مقامی کونسلوں میں جگہ بنائی ہے جبکہ کشمیر کے قوم پرست حلقوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق و وفاداری کی شرط پر انتخابات میں حصہ لیا۔ آزاد کشمیر میں ہوئے بلدیاتی انتخابات بڑی حد تک پرامن رہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت میں لانگ مارچ کی وجہ سے وفاقی حکومت نے ستائیس ستمبر کو ہونے والے مذکورہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں پولنگ اسٹیشنز کے لئے سیکیورٹی اہلکار فراہم کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر کی سیکیورٹی فورسز پرامن طریقے سے انتخابات کرانے میں کامیاب رہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ نے مظفر آباد میں انتخابات کا پرامن انعقاد کیا تاہم بعد میں وفاقی حکومت نے انتخابات کے بعد کے دوسرے مرحلے میں مقامی انتظامیہ کی مدد کے لئے پولیس اور ایف سی فراہم کی۔ مجموعی طور پر آزاد کشمیر انتخابات شفاف رہے کیونکہ کسی بھی جماعت نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ ماضی کے برعکس وفاقی حکومت یا کسی بھی ریاستی ادارے نے انتخابی عمل میں مداخلت نہیں کی اور نہ ہی کسی امیدوار یا جماعت کی حمایت کی۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح آزاد کشمیر  میں بھی ’سٹیٹس کو‘ کی حامی قوتیں انتظامی اور مالی اختیارات کو جمہوریت کے نچلے درجے میں منتقل کرنے کے حق میں نہیں تھیں۔ کچھ سرکردہ رہنماؤں نے انتخابات سے بھاگنے کی بھرپور کوشش کی تاہم اِن بلدیاتی انتخابات کے حق میں عوامی حمایت دیکھ کر انہیں مجبوراً انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ دس ہزار سے زیادہ امیدواروں نے آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ انتخابات سے قبل ممکنہ امیدواروں کی ایک بڑی تعداد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر کے باوجود‘ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (نواز) دونوں نے انتخابی کامیابیاں حاصل کرکے سیاسی مبصرین کو حیران کردیا ہے۔ مسلم لیگ (نواز) نے مظفر آباد میں انتخابات میں کامیابی حاصل کی جہاں اسے گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے مظفرآباد اور پونچھ میں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنایا تاہم اس نے میرپور ضلع میں بمشکل ایک نشست جیتی‘ جو اس کا سب سے مضبوط سیاسی گڑھ ہوا کرتا تھا۔ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی‘ پی ٹی آئی کو دور رکھتے ہوئے کئی شہروں اور قصبوں میں مقامی حکومتیں تشکیل دینے کے لئے قریبی تعاون کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے آزاد کشمیر میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ وزیر اعظم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے اور اپنی پارٹی میں سیاسی ہیوی ویٹس (الیکٹبیلز) شامل کئے۔ ضلع اور وارڈ کونسل کے انتخابات کے لئے تقریبا اکیس سو امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے عوام کی رائے ظاہر کر دی ہے جو بہتر گورننس اور سرکاری اداروں کی خدمات کا معیار بہتر دیکھنا چاہتے ہیں اور یقینا عوام کے منتخب نمائندوں کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اُترتے ہوئے ایک مؤثر کردار ادا کریں۔ موجودہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں سخت تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ قانون 1980ء کی دہائی میں نافذ کیا گیا تھا اور مقامی حکومتوں کو مطلوبہ اختیارات اور مالی وسائل کی منتقلی کو یقینی نہیں بناتا۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کو افسرشاہی کے تابع رکھا گیا ہے جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ افسرشاہی عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کے سامنے جوابدہ ہو۔ مزید برآں‘ آزاد جموں و کشمیر کا عبوری آئین باقاعدہ اور بلا تعطل انتخابات کے انعقاد کو آئینی تقاضا نہیں سمجھتا۔ یہ مبہم طور پر بلدیاتی نظام کے بارے میں بات کرتا ہے اور ان انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری حکومت کی مشاورت سے آزاد جموں و کشمیر کے الیکشن کمیشن کو تفویض کرتا ہے لیکن اسے ایک لازمی اور قانونی ذمہ داری نہیں بناتا۔ آزاد جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی تاکہ بلدیاتی انتخابات کے باقاعدگی سے انعقاد اور منتخب نمائندوں کو انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیارات تفویض کرنے کے لئے آئینی بنیاد قائم کی جاسکے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے‘ جس کا مقصد مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ اب چونکہ لوکل گورنمنٹ سسٹم نے باضابطہ شکل اختیار کرلی ہے اس لئے ایم ایل اے کے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کرتے ہوئے ان فنڈز کا استعمال نچلی سطح کے بلدیاتی نمائندوں کے ذریعہ کیا جانا چاہئے۔ اِس کے علاوہ مقامی حکومتوں کی مالی خودمختاری کی ضمانت کے لئے آزاد جموں و کشمیر حکومت کو لوکل ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جمع کئے گئے محصولات کا معقول فیصد لوکل گورنمنٹ باڈیز کو دینا چاہئے اور اس میں وقت کے ساتھ باقاعدگی سے اضافہ بھی کرنا چاہئے۔ ایک ڈسٹرکٹ فنانس بورڈ قائم کیا جائے تاکہ تمام اضلاع کو ان کے رقبے‘ آبادی اور پسماندگی کے لحاظ سے حصہ مل سکے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ارشاد محمود۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)