سوشل میڈیا: دوسرا  رُخ

      عصر حاضر کی دنیا میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک فرد کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہونے کے علاوہ عالمی سطح پر خیالات کے تبادلے کا ذریعہ اور مددگار بھی ہے۔ فیس بک‘ ٹوئٹر‘ انسٹاگرام‘ واٹس ایپ وغیرہ جیسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سے صارفین کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے اور سوشل میڈیا کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس کے ذریعے ملنے والے مواقعوں پر نسلی لسانی تعصبات کی چھاپ نہیں ہے۔  ڈیجیٹل 2022ء نامی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹوئٹر و یوٹیوب کے فعال صارفین کی تعداد سات کروڑ سے زیادہ‘ فیس بک صارفین کی تعداد ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ اور انسٹاگرام صارفین کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اِسی طرح ٹک ٹاک صارفین کی تعداد ایک کروڑ بائیس لاکھ سے ہے اور ہر صارف روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت ’ٹک ٹاک‘ پر گزارتا ہے۔ ان ایپس کے وسیع پیمانے پر استعمال کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ کی کم قیمت میسر سہولیات ہیں۔ نوجوان نسل میں سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال ذہنی صحت کے کئی مسائل کا باعث بن رہا ہے‘ جس پر خاطرخواہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے زیادہ تر یوٹیوب‘ فیس بک‘ انسٹاگرام‘ ٹوئٹر‘ ٹک ٹاک وغیرہ پر طویل وقت گزارتے ہیں۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کو ایک ایسی جگہ سمجھتے ہیں جہاں وہ خود کو کم الگ تھلگ محسوس کرسکتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بے خبر ہیں۔ نوعمر اور نوجوان بالغ آن لائن سوشلائزیشن میں اپنا معیاری و قیمتی وقت گزارتے ہیں۔ یہ ضرورت سے زیادہ ہے اور ضرورت سے زیادہ کسی بھی شے کا استعمال خرابی کا باعث بنتا ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے نفسیاتی مسائل جیسا کہ اضطراب‘ افسردگی‘ تنہائی اور یہاں تک کہ خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور نفسیاتی مسائل اور اُلجھنیں اِس طرز عمل کا نتیجہ ہیں جس سے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی بھی منفی طور پر متاثر ہو رہی ہے اور وہ پنی بنیادی ذمہ داریوں اور تخلیقی صلاحیتوں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کر رہے بلکہ ایک جائزے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والوں میں تخلیقی صلاحیتیں کم ہو رہی ہیں اور اُن کی سماجی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ ایک بار جب کوئی شخص (صارف) سوشل میڈیا کا عادی ہو جائے تو پھر اِس کا استعمال ترک کرنا نشے کے عادی فرد کی طرح نشہ چھوڑنے جیسا مشکل و پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین کے لئے‘ ان کی تصاویر اپ لوڈ کرنے اور ان پر تبصرے اور پسند حاصل کرنے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کے لئے اپنے سوشل میڈیا کے استعمال کو ترک کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آج کی دنیا میں‘ افراد میں اضطراب کی بڑی وجہ دوسروں کی طرف سے ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں پر ناقص ردعمل ہے۔ یہ افراد اس بارے میں زیادہ فکر مند ہیں کہ انہیں اپنے مواد پر کتنے لائیکس اور تبصرے ملتے ہیں۔ اس طرح کے پریشان کن خیالات اُن کی نیند کی خرابی کا باعث بن سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھی لوگوں کو ان کی زندگی کی ذمہ داریوں سے بھٹکا رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں عام طور پر اہم تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا آن لائن لنکس اور غلط دوستیاں بنانے کے مواقع فراہم کرتا ہے‘ جو اضافی جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسے لوگوں کو اپنا معیاری وقت دینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جو اِن کی قطعی پرواہ نہیں کرتے۔ کچھ افراد سوشل میڈیا تعلقات کو بہت زیادہ وقت و اہمیت دیتے ہیں‘ جو ان کے دیگر خاندانی و سماجی تعلقات کو متاثر کرتے ہیں‘ ان کی شادی شدہ زندگی کو برباد کرتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی جذباتی فلاح و بہبود پر منفی انداز میں اثر انداز ہو رہا ہے اگرچہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے اور یہ طویل عرصے تک حاکم رہے گا لیکن لوگوں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر طویل وقت گزارنے کے منفی اثرات کو سمجھیں۔ نوجوان نسل کو شدید ذہنی صحت کے مسائل سے بچانے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر مشاورتی سیشنز کا انعقاد کرے جو مناسب ہو گا اور معاشرے کی ہر سطح پر نوجوان نسل کی ذہنی صحت کو برقرار و بحال اور اِس میں بہتری کے لئے سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے بارے میں شعور اُجاگر کیا جانا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عابدہ نورین اور رابعہ بصری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)