برآمدات کا فروغ مگر کیسے؟

پاکستان کو کم برآمدی امکانات کی وجہ سے طویل عرصے سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ برآمدات کی صحت مند سطح اور تجارت کی مثبت شرائط کسی ملک کی معیشت کے لئے بہتر ہوتے ہیں۔ عالمی بینک کے جاری کردہ حالیہ عالمی تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ ادائیگی کے منفی توازن والے ممالک کی اوسط فی کس جی ڈی پی تقریباً آٹھ ہزار ڈالر ہے۔ ادائیگیوں کے مثبت توازن والے ممالک کی فی کس جی ڈی پی ساڑھے اُنیس ہزار ڈالر ہے۔ یہ صرف تجارت کی مثبت یا منفی شرائط نہیں جو فی کس جی ڈی پی میں اونچ نیچ کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس بات کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ جیسے جیسے قومی جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے‘ قومی آمدنی کی شرح میں بھی اُسی تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک کی برآمدات اُس کی جی ڈی پی کے دس فیصد سے کم ہو تو اوسطاً فی کس آمدنی ساڑھے اٹھارہ ہزار ڈالر سے زیادہ رہتی ہے۔ اِسی طرح جن ممالک کی جی ڈی پی کی آمدنی دس فیصد سے زیادہ برآمدات سے حاصل ہوتی ہے ان کی اوسط فی کس جی ڈی پی قریب بتیس ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ پاکستان کی برآمدات کا علاقائی ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں سے ایک ہونے کے باوجود پاکستان کی کارکردگی برآمدی شعبے میں مایوس کن رہی ہے۔ سال 2020ء میں پاکستان کی اشیاء اور خدمات کی برآمدات تقریبا ًاٹھائیس ارب ڈالر تھیں۔ بنگلہ دیش کی برآمدات اُنتالیس ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھیں اور مذکورہ عرصے میں بھارت نے پانچ سو ارب ڈالر مالیت کی اشیا اور خدمات برآمد کیں۔ 1972ء میں پاکستان کی برآمدات 0۔68 ارب ڈالر‘ بنگلہ دیشی برآمدات 0۔36 ارب ڈالر اور بھارتی برآمدات 2۔88 ارب ڈالر تھیں۔ اسی عرصے کے دوران پاکستان کی برآمدات میں تقریبا ًچالیس گنا اضافہ ہوا جبکہ بنگلہ دیشی برآمدات میں 108گنا اور بھارتی برآمدات میں 172گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اقتصادی نتائج پر درآمدات اور برآمدات کے اثرات کے درمیان عدم مساوات حائل ہے۔ عالمی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھتی ہوئی درآمدات ہمیشہ نقصان نہیں پہنچاتیں لیکن برآمدات میں اضافے سے یقینی فائدہ ہوتا ہے۔ ایک مثبت بیرونی توازن کسی معیشت کی اقتصادی صحت کے لئے اہم ہوتا ہے۔ پاکستان کی برآمدی صلاحیت میں اضافہ کیوں نہیں ہوا اِس کی وجوہات ادارہ جاتی فریم ورک میں پائی جانے والی خرابیوں کا مظہر ہیں۔ دیگر وجوہات میں اقتصادی بدانتظامی سے متعلق ہیں۔ پاکستان ٹیکسٹائل‘ چمڑے اور زرعی مصنوعات جیسے چاول اور کپاس جیسی روایتی اشیا برآمد کر کے مطمئن ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی عالمگیریت کے باوجود‘ ہمارے برآمدی شعبے کی مسابقت میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ویلیو ایڈیشن‘ تنوع یا جدت طرازی پر بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ زیادہ تر برآمدات اہم سبسڈیز پر منحصر ہیں اور یہ قومی دولت میں اضافے نہیں کر رہیں بلکہ معاشی وسائل کی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ برآمدی شعبے کو دی جانے والی بڑی سبسڈیز پر تنقید ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پائیدار نہیں ہیں تاہم برآمدی شعبے کے تئیں حکومت کی فراخدلی کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کے لئے جدت طرازی اُس کی ایکسپورٹ بیس کو وسعت دینے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جدت طرازی کے لئے معیاری تعلیم و تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سے ممالک نے اعلی تعلیم میں سرمایہ کاری سے بڑے پیمانے پر فوائد حاصل کئے ہیں لیکن جب ہم اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے شعبوں کو دیکھتے ہیں تو اِس میں حکومت کی سرمایہ کاری انتہائی کم دکھائی دیتی ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لئے‘ تعلیم کا معیار‘ خاص طور پر نچلی سطح پر‘ شاید ہی حکومتوں کی ترجیح ہے۔ تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لئے کوئی مربوط نقطہ نظر بھی نہیں ہے۔ نتیجتاً فی کس مزدوری کی پیداواری صلاحیت کم ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے بین الاقوامی مینوفیکچرنگ ماحول میں صنعتیں مشکل سے حالات کا مقابلہ کر پا رہی ہیں۔ پاکستان میں اقربا پروری کا کلچر پایا جاتا ہے جس کی کئی شکلیں ہیں جن میں سرکاری اداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کرنا بھی شامل ہے۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل اس کی دو واضح مثالیں ہیں۔ نتیجے کے طور پر مذکورہ دونوں اہم قومی اداروں کی خدمات کم لیکن اخراجات نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ اس وقت غیر پیداواری اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو بڑے پیمانے پر سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے۔ ایک بار جب لیبر فورس کو اہلیت (میرٹ) کے علاؤہ دیگر نظریات کی بنیاد پر بھرتی کیا جاتا ہے تو اُس کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ادارہ جاتی کارکردگی خراب ہو جاتی ہے۔ ادارہ جاتی نظام بہتر بنانے اور قومی اداروں کو پیداواری بنانے یا غیر مستحکم کاروباری اداروں کو بند کرنے کے لئے بامعنی اقدامات کی ضرورت ہے۔ برآمدی شعبے کی خراب کارکردگی کا ایک سبب پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی بھی کمی ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے لوگ جائیداد کی خرید و فروخت (ریئل اسٹیٹ) میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اِسی رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے عدم توازن نے معاشی نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ لوگ اب نئے کاروبار میں سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اس کی بجائے وہ رئیل اسٹیٹ میں اپنا اضافی سرمایہ لگا دیتے ہیں۔ جب کوئی رئیل اسٹیٹ سے بھاری اور فوری آمدنی حاصل کرتا ہے تو مینوفیکچرنگ یا زراعت جیسے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کا خطرہ مول نہیں لیتا اور جب تک اِس رجحان کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی اُس وقت تک پاکستان کے برآمدی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور نہ ہی ملکی برآمدات میں مجموعی طور پر حسب خواہش اضافہ ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رفیع امیر الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)