تعلیم و تحقیق: مستقبل پر نظر 

آج پاکستان کو جس معاشی خسارے کا سامنا ہے اس کی بنیادی وجوہات عدالتی اصلاحات‘ تعلیم‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ جدت طرازی اور انٹرپرینیورشپ پر توجہ کا فقدان ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ اکتوبر 2021ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کو 139 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر رکھا گیا۔ ڈبلیو جے پی رول آف لأ انڈیکس ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (ڈبلیو جے پی) کے ذریعہ تیار کیا گیا اور یہ بڑے پیمانے پر کئے گئے سروے پر مبنی تھا جس میں کئی لاکھ قانونی ماہرین اور ممتاز شہری شامل تھے۔ درجہ بندی کے عمل میں جن عوامل کو مدنظر رکھا گیا ہے ان میں حکومتوں کی کارکردگی‘ بدعنوانی‘‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور امن و امان جیسے امور شامل ہیں‘ دوسرا بڑا قدم جو پاکستان کو اٹھانا ہوگا وہ یہ ہے کہ وہ تیزی سے علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقل ہوجائے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ہماری حکمت عملی بنیادی طور پر اعلی ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے پر مبنی ہونی چاہئے۔ مصنوعی ذہانت‘ انرجی سٹوریج سسٹمز‘ نینو میٹریلز‘ ویکسینز‘ بائیوسیملرز اور اس طرح کے دیگر شعبوں میں ترقی کے وسیع مواقع موجود ہیں تاہم پاکستان کی برآمدات کم قیمت ٹیکسٹائل اور اس طرح کی دیگر اشیاء پر مبنی ہیں اور اس وجہ سے وہ تقریباً تیس ارب ڈالر پر جمود کا شکار ہیں۔ اس دور اندیشی کے نقطہ نظر سے نکلنے کے لئے‘ ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی جدت طرازی کو ترقی کی ضرورت ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر سنگاپور‘ کوریا‘ تائیوان اور چین جیسے ممالک نے عمل کیا ہے۔ ہماری تقریبا ًستر فیصد آبادی کی عمر تیس سال سے کم ہے‘ اس لئے ہم بھی یہی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمارے نظام تعلیم اور تربیت میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہوگی تاکہ مسائل کو حل کرنے کی مہارتوں کو فروغ دیا جاسکے اور نجی شعبے کو قومی تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) کی کوششوں کا بڑا حصہ شروع کرنے کیلئے ترغیبات کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جاسکے۔ ایک قومی تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرنا ضروری ہو گیا ہے اور اِس مقصد کے لئے مالی وسائل (فنڈز) کو دیگر شعبوں سے تعلیم و تحقیق کی طرف موڑنے کی ضرورت ہوگی۔ تقریبا ًدو کروڑ بیس لاکھ (بائیس ملین) بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ہمارے سرکاری سکولوں میں ویرانی اور محرومی کی ایک افسوسناک حالت عیاں ہے۔ ایسی کمزور بنیادوں پر علم پر مبنی معیشت کی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے کالجوں کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ ان میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے شعبے کوترقی دے کر ہی ہم زندگی کے باقی شعبوں میں ترقی کر سکتے ہیں۔کیونکہ یہاں سے نکل کر آگے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے ہی ملکی معاملات میں سرگرم ہوجاتے ہیں اور ان کی کارکردگی کے منفی اور مثبت ہونے پر ہی ملکی ترقی اور تنزل کا انحصار ہوتا ہے۔ اسلئے جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ٹیکنالوجی کے شعبے میں جس قدر زیادہ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں اس قدر ہی ملک میں تربیت یافتہ افرادی قوت میں اضافہ ہوگا اور ملک ترقی کریگا۔یہ اقدام ہمیں بلا تاخیر اٹھانا ہوگا۔چین نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں جو سرمایہ کاری کی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ دنیا میں ٹیکنالوجی کے شعبے پر راج کر رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب اس پہلو سے موثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم اپنے معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر سکیں اس طرح نہ صرف معاشی مشکلات کا مقابلہ کیا جا سکتاہے بلکہ مستقبل کے حوالے سے بھی بڑی کامیابیوں کا راستہ ہموار ہو سکتاہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عطا الرحمن‘ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)