گھر بیٹھے (آن لائن) کام کاج

دنیا کورونا وبا ء سے دسمبر 2019ء میں متاثر ہوئی جس کے بعد سے سماجی و معاشی طور پر سنبھلنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور ہر ملک و معیشت اپنے طور پر جاری و ساری رہنے کیلئے تگ و دو میں مختلف قسم کے تجربات سے گزر رہی ہے۔ اِس صورتحال میں اُن سبھی ممالک کی معیشتوں کو کامیابی ہوئی ہے جنہوں نے گھر بیٹھے (آن لائن) کام کاج کے تجربات کئے ہیں۔ ایسی ایک مثال ہانگ کانگ کی ہے جہاں کا ”چیونگ کانگ سنٹر“ وہاں کی بہترین عمارتوں میں سے ایک ہے‘ 68منزلہ یہ عمارت ہانگ کانگ کی تیسری بلند عمارت ہے جس میں دیگر دفاتر کے ساتھ ساتھ چیونگ کانگ ہولڈنگز اور کچھ دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے دفاتر بھی موجود ہیں تاہم کچھ عرصے سے یہ اور ایسی بلند و بالا عمارتوں میں سے تقریباً چوتھائی خالی پڑی ہیں اور شہر کے کئی مہنگے کمرشل مقامات بھی خالی ہی ہیں۔ ہانگ کانگ پر اس وقت کئی عوامل اثر انداز ہورہے ہیں۔ چین کیساتھ ہانگ کانگ کی سرحدیں بند ہیں جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کو مشکلات پیش آرہی ہیں جو اس شہر کو ملک میں اپنی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ دنیا کے دیگر حصوں جیسا کہ امریکہ میں اگرچہ ویکسین کے ذریعے کورونا وائرس کو قابو کرلیا گیا مگر اس کے باوجود وہاں صورتحال مثالی نہیں ہے۔ اندازہ یہ لگایا گیا تھا کہ ایک بار کورونا ختم ہونے کے بعد دفاتر میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں دفاتر کو واپس آئیں گے تاہم یہ اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ امریکہ کے معروف شہر نیویارک کے ’مین ہیٹن‘ نامی علاقے سے متعلق حالیہ اعداد و شمار کے مطابق فضائی سفر کرنے والوں اور کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد تو کورونا سے پہلے کی تعداد کے برابر ہوگئی ہے لیکن دفاتر ابھی بھی بہت حد تک خالی ہیں ’مین ہیٹن‘ کے دفاتر میں کام کرنیوالے افراد میں سے اب صرف چالیس سے پچاس فیصد افراد ہی روزانہ دفتر آتے ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے بہت کم مسافر سفر کرتے ہیں جبکہ یہ ’سب وے‘ نظام شہر کی آمدن کا ایک ذریعہ ہے‘ یہ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز شہر میں تمام خالی دفاتر کو مستقل طور پر سستی رہائش گاہوں میں تبدیل کرنے پر غور کررہے ہیں‘دوسری طرف فیس بک اور ایمازون جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے کورونا کے آغاز میں جو دفاتر خریدے تھے یا خریدنا چاہتے تھے اُنہوں نے اپنی حکمت عملی سے رجوع کر لیا ہے اور اب ایسی جگہوں کو فروخت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اِسی طرح امریکہ ہی کے سان فرانسیسکو شہر میں کئی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مرکزی دفاتر موجود ہیں اور وہاں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے اور گھر سے کام کی اجازت کی وجہ سے شہر کا ڈاؤن ٹاؤن سنسان ہوچکا ہے۔ ملازمین کے نہ ہونے کا مطلب ہے کہ شہری خدمات استعمال کرنے والے بھی کم ہوگئے یعنی سرکاری و نجی اداروں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ ہانگ کانگ کے چیونگ کانگ سینٹر کی طرح نئی تعمیر ہونے والی سیلز فورس ٹاور بھی جزوی طور پر خالی ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کمپنی میں بھی لوگ گھروں سے کام کرتے ہیں۔ دفاتر کے استعمال کے بدلتے رجحانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی آنے کو ہے اگرچہ مقامی اداروں میں کام کرنے والے پاکستانی شاید فوری طور پر کسی تبدیلی کا مشاہدہ نہ کریں اور شاید انہیں فوری طور پر گھر سے کام کرنے کی سہولت میسر نہ ہو لیکن گھر سے کام کرنیکی صورت میں اخراجات میں جو بچت ہوتی ہے اس کی وجہ سے ممکن ہے کہ نئی کمپنیوں کے کام کرنے کے طریقے پر یہ اثر انداز ہوگی‘ پاکستان میں انتظامی عہدوں کی درجہ بندی کا ماڈل شاید دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت دیر تک موجود رہے لیکن کم لاگت کے فوائد اس ذہنیت کو ختم کردیں گے جن کے نتیجے میں ایک منتظم (بہسس) ملازمین کو دفاتر میں اپنی نظروں کے سامنے دیکھنا چاہتا ہے‘ ٹیلنٹ کی عالمی مارکیٹ میں ایک اور بڑی تبدیلی کے بھی امکانات ہیں‘ حالیہ ماہ میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر افراد کو نوکری سے نکالنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ”ورک فرام ہوم“ کے ماڈل کو تسلیم کررہی ہیں۔ اس طرح وہ کمپنیاں بیرونِ ملک سے بھی افراد کو کانٹینٹ ماڈریشن اور اس قسم کے دیگر کاموں کیلئے ملازمتوں پر رکھ سکتی ہیں‘ بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کو نہ صرف خود ہجرت کرنی پڑتی ہے بلکہ اپنے گھروالوں کو بھی اس عمل سے گزارنا پڑتا ہے اور ورک ویزا کی حدود اور دیگر مشکلات سے نمٹنا پڑتا ہے مگر گھر سے کام کرنے کی صورت میں نقل مکانی کا رجحان بہت کم ہوجائے گا‘ ڈاکٹروں کو تو کام کی جگہ پر موجود ہونا پڑتا ہے لیکن ان کے علاوہ شاید مالیاتی شعبے‘ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی بیرونِ ملک کام کرسکتے ہیں‘ مغربی ممالک میں امیگریشن کی حمایت ختم ہونے کیساتھ‘ غیر ملکی شہریوں کی خدمات کو کم خرچ پر استعمال کرنے کی یہ نئی شکل ہر ایک کیلئے بہترین حل ثابت ہوسکتی ہے‘ وہ پاکستانی جو اس وقت اپنے کیریئر کا انتخاب کررہے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے فیصلے لینے والے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان بدلتے رجحانات کو مدِنظر رکھیں‘ اگر کسی غیر ملک میں ہجرت کا مقصد ہے تو پھر طب کے شعبے یا اس جیسا کوئی پیشہ اختیار کیا جائے جس میں آپ کو کام کی جگہ پر موجود ہونا ہو‘ اگر کوئی گھر سے کام کرنے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے جو ممکنہ طور پر دیگر شعبوں میں ابھریں گے تو اسے یہ جاننا ضروری ہے کہ سلیک (صلاچک) اور اسی طرح کے دیگر آن لائن ورک سے متعلق آسانیوں کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی صلاحیت کے مطابق عالمی ٹیموں کا حصہ بن سکتے ہیں‘ وقت ہے کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے اور انہیں آن لائن جاب مارکیٹ کے بارے میں بتایا جائے جو مستقبل میں کام کاج کا اسلوب ہوگا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافیعہ ذکریا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔