اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور وہ بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ یہ الفاظ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے حالیہ خطاب میں کہے تھے۔ نریندر مودی پر پاکستان میں دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بھارتی الزامات کے جواب میں کھل کر اور بے باکی سے تنقید پر مسرت و اطمینان کا اظہار کیاگیا۔ یہ بیانیہ چند ماہ کے دوران پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی اہم سیاسی اقدامات کے پس منظر میں تشکیل پایا ہے۔ جن میں ’سی او پی 27‘ نامی عالمی کانفرنس‘ بی آئی ایس پی میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی شمولیت اور سندھ میں طلبہ یونینوں پر عائد پابندی ختم کرنے جیسے واقعات شامل ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی ایک نیا دور میں قدم رکھ چکی ہے؟ رواں برس تباہ کن سیلاب کے بعد سے پیپلزپارٹی نے عالمی سطح پر پاکستان کے لئے موسمیاتی انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر رکھی ہے اور اِس مقصد کے لئے دنیا بھر میں ہائی پروفائل سمٹ اور کانفرنسوں میں بھرپور تیاری سے شرکت کی جا رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے متعدد مواقع پر اس بات پر زور دیا ہے کہ موسمیاتی انصاف صرف مالی معاوضے ہی کے ذریعے ممکن ہے امداد یا خیرات کے طور پر نہیں۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ غریب ممالک ترقی یافتہ دنیا کی بے لگام صنعت کاری کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت وزیر موسمیاتی شیری رحمان نے ’سی او پی 27‘ نامی عالمی اجلاس میں موسمیاتی اثرات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے فنڈ کی تشکیل پر زور دیا تھا۔ جس سے کئی ممالک بالخصوص گلوبل ساؤتھ سے تعلق رکھنے والے ممالک متاثر ہیں اور اِن میں پاکستان بھی شامل ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی اور سفارت کاری میں پاکستان عالمی سطح پر پیش پیش ہے اور اِس میں کلیدی اور نمایاں کردار پیپلزپارٹی کی قیادت سرانجام دے رہی ہے۔ پیپلزپارٹی قیادت نے سال 2022ء کے دوران سول سوسائٹی کو مضبوط بنانے اور اِس کی شمولیت سے کئے گئے فیصلوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سندھ سٹوڈنٹ یونینز بل 2019ء کی منظوری سے اعلیٰ تعلیم کے اہم ترین سٹیک ہولڈرز کو ایک بار پھر فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے اور مستقبل کے سیاسی رہنماؤں کے طور پر نظریاتی طور پر مبنی تنقیدی مفکرین پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ خواجہ سراؤں کو بے نظیر کفالت پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں شامل کرنا ایک اور اہم کامیابی تھی اور یہ پاکستان میں مظلوم شناختوں میں سے ایک کو انتہائی ضروری مدد فراہم کرے گی۔ جبکہ خواجہ سراؤں کے خلاف دو ہزار سے زیادہ پرتشدد واقعات کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔حالیہ دنوں میں مزید قابل ستائش اقدامات میں پیپلزپارٹی قیادت کی جانب سے سکولوں کالجوں میں قرآن کی لازمی تعلیم کا کہا گیا اُسے لاگو کرنا تھا۔ آخر میں سندھ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس (ترمیمی) بل 2022ء کی منظوری سے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ معاہدوں کی پاسداری‘ کام کاج کے مناسب حالات کو یقینی بنانے اور کارکنوں سے بدسلوکی و ہراسگی روکنے کے حوالے سے متعلق اختیارات کے ناجائز استعمال کی اصلاح کر سکے۔ مذکورہ بالا تمام باتوں نے بعض حلقوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اپنی بائیں بازو کی جڑوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ پارٹی کس حد تک اس پر زور دے گی خاص طور پر گہری‘ زیادہ وسیع سیاسی معیشت کے مسائل جو پاکستان کو درپیش ہیں اور جو پاکستان میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے میں بھی رکاوٹ کا باعث ہیں۔ ان میں زمینی حالات کی درستگی یقینا کسی ایک جماعت کے لئے ممکن نہیں اور نہ ہی کسی ایک جماعت کی ذمہ داری ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اپنی سرگرمیوں اور فعالیت کو صحیح معنوں میں عام شہریوں کے خدشات کے اردگرد مرکوز رکھے گی اور زیادہ بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے سیاسی سرمائے یعنی اپنے کارکنوں کو جو کہ طاقت کا سرچشمہ ہیں کو ملک گیر سطح پر منظم بھی کرے گی۔ (بشکریہ: دی ٹربیون۔ تحریر: عباس موسوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام