شعبہئ تعلیم اور توقعات 

سال 2022ء کے دوران شعبہئ تعلیم کی کارکردگی اور اہم واقعات کے جائزے پر ایک مرتبہ پھر دیرینہ مسائل حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ سال دوہزاربائیس میں سنگل نیشنل کریکولم (ایس این سی) کو واپس لینا (رول آؤٹ) اہم رہا۔ ’ایس این سی‘ کا منصوبہ یقینا ناقص سوچ کے تحت کی جانے والی کوشش تھی جس کے ذریعے سماجی طبقاتی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور سب کے لئے تدریسی مواقعوں تک رسائی کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا جس کی ضرورت بہرحال محسوس کی جا رہی ہے۔ جب کسی ملک میں یکساں نصاب تعلیم ہی نہیں ہوگا تو وہاں طلبہ کی یکساں اہلیت کی جانچ پڑتال کس طرح کی جا سکے گی۔ ’ایس این سی‘ کے تحت سرکاری سکولوں کی درسی کتب ملک گیر سطح پر پڑھانے کا تصور تھا جس کی تعلیمی ماہرین کی اکثریت نے تنقید کی۔ ابتدائی طور پر ماہرین تعلیم کو لاحق تشویش یہ تھی کہ ایس این سی (سرکاری) نصاب تعلیم کی اصلاح کی بجائے اِسے بگاڑ دے گا کیونکہ مدارس اِس سے مستثنیٰ رہیں گے۔ تقریبا ایک سال قبل پنجاب حکومت نے ستر ہزار عربی اساتذہ کی تربیت اور خدمات حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ رواں ماہ کے اوائل میں وزیراعلیٰ پنجاب نے سرکاری سکولوں میں مزید ایک لاکھ ’مذہبی سکالرز‘ کی خدمات حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب پنجاب کے سرکاری سکول ریاضی اور سائنس کے اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں۔ اس بنیاد پر صرف یہ اعلان کیا جا سکتا تھا کہ پنجاب مزید پچیس ہزار سکول ٹیچروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ان تمام اضافوں کو برقرار رکھنے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا یہ ایک ایسا سوال ہے جو کوئی نہیں پوچھ رہا اور نہ ہی سوچ رہا ہے۔
سال دوہزاربائیس میں ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین کی بحالی دیکھی گئی جنہیں سابق دور حکومت میں بے دخل کر دیا گیا تھا۔ یہ ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ تھا جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی خودمختاری کو نمایاں طور پر کم کرنے اور اسے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کی وزارت کے کنٹرول میں لانے کی کوشش تھی۔ اس مقصد کے لئے ایچ ای سی آرڈیننس میں ترمیم کی دو ناکام کوششوں کے بعد تیسری ترمیم پر کام جاری ہے جس کے 2023ء میں لاگو ہونے توقع ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک کی متعدد جامعات (یونیورسٹیاں) دیوالیہ ہیں اور اِن کے لئے اپنے ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن کی ادائیگیاں ممکن نہیں رہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا بجٹ افراط زر (مہنگائی) کے ساتھ بڑھایا نہیں گیا۔ ملکی معاشی مسائل کو دیکھتے ہوئے‘ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے سال میں سرکاری یونیورسٹیوں کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوگا لیکن اُن کے پاس ادائیگیوں کے لئے مالی وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ اور وزیر صحت نے اعلان کیا کہ وہ طے شدہ فوائد سے ہٹ کر طے شدہ کنٹری بیوشن پینشن سسٹم لاگو کریں گے۔ سرکاری ملازمین (پبلک سیکٹر) کی پنشن کا مسئلہ یقینا بہت بڑا مسئلہ ہے جو صوبوں‘ محکموں اور وزارتوں سے بالاتر ہے لیکن یونیورسٹیاں اس میں کمی کے لئے حکومت سے تعاون نہیں کر رہیں۔ دوہزاربائیس ’کامیاب جوان پروگرام‘ سے مستفید ہونے والوں کے اعداد و شمار بھی سامنے آئے۔ یہ پروگرام تحریک انصاف کے دور میں شروع ہوا اور اِسے پی ڈی ایم حکومت کے دور میں بھی جاری رکھا گیا۔ موسم بہار میں نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے زیر انتظام پروگرام کے اندراج کے اعداد و شمار نے حوصلہ افزا ہیں۔ کامیاب جوان پروگرام کے تحت پیش کئے جانے والے تربیتی پروگرام پیشہ ورانہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان میں ہائی سکول کے گریجویٹس کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود درخواست دہندگان میں 74 پی ایچ ڈی گریجویٹس‘ 20 ہزار سے زیادہ ایم اے یا ایم ایس گریجویٹ اور 76 ہزار سے زیادہ بی ایس گریجویٹس شامل تھے۔ ان ایک لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی گریجویٹس نے تمام شعبوں میں درخواستیں دیں جو کل درخواستوں کا اٹھائیس فیصد حصہ لیا۔ یہ تعداد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی قدر و قیمت اور اِس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی نشاندہی بطور علامت کر رہی ہے۔ یقینی امر ہے کہ اگر نوجوانوں کو تربیت دی جائے تو خودروزگار کے ذریعے حکومت پر بوجھ کو کم کر سکتے ہیں۔ سالنامے کا خلاصہ یہ ہے کہ آنے والے سال (2023ء) میں‘ توقع ہے کہ ایچ ای سی آرڈیننس میں ایک اور ترمیم کے ذریعے ایچ ای سی کو فعال بنایا جائے گا لیکن ایچ ای سی کی خودمختاری اور صوبائی نمائندگی میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ توقع یہ بھی ہے کہ سال 2023ء میں یونیورسٹیاں اپنے موجودہ اخراجات پورا کرنے کے لئے خاطرخواہ حکومتی امداد حاصل کریں گی۔ پاکستان میں 31 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ توقع ہے کہ بیروزگاروں میں 62 فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں وہ پاکستان میں رہتے ہوئے اِس کی معاشی ترقی میں ہاتھ بٹائیں گے۔ تعلیم اور خواندگی کی کمی تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔ تعلیم پر توجہ دینے اور تعلیم پر زیادہ مالی وسائل خرچ کرنے سے ملک میں پائیدار مالی و سماجی اور معاشی مستحکم لایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)