سالنامہ: سی پیک

 اس کے باوجود ’سی پیک‘ پاکستان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ پہلی بار کسی بڑی طاقت نے خطے کی ترقی کے لئے ”کلیدی اہمیت کا لائحہ عمل (ماسٹر پلان)“ دیا ہے اور وہ بھی بغیر کسی سیاسی مصلحت کے اِس بڑے منصوبے میں مالی و تکنیکی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ چین کی جانب سے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)‘ سی پیک جیسے درجنوں ترقیاتی منصوبوں کا مجموعہ ہے۔ سی پیک کا مقصد بندرگاہوں‘ سڑکوں‘ ریلوے اور ہوائی اڈوں کے ساتھ پورے خطے میں پاور پلانٹس اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس میں سرمایہ کاری کرنا ہے لیکن چین کی سرمایہ کاری کے عوض پاکستان کی خارجہ پالیسی پر سمجھوتا کرنا پڑا ہے اور پاکستان کو اپنی کئی ایک پالیسیاں چین کے نقطہئ نظر (چین کی خواہشات) کے مطابق تبدیل کرنی پڑی ہیں تاکہ ’بی آر آئی‘ اور ’سی پیک‘ کو عملی جامہ پہنایا جا سکے جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ علاقائی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ صنعتی خصوصی اقتصادی زونز بچھانے سے آنے والا معاشی انقلاب پاکستان کے وسائل کی ترقی کے لئے نوید ہے لیکن ہر طرف سے رکاوٹیں حائل ہیں۔ سی پیک کو لاحق خطرات میں سب سے پہلا خطرہ پاکستان کے سیاسی و معاشی اور امن و امان کے استحکام سے متعلق صورتحال ہے اور اِس مرحلے پر پاکستان کو افغانستان سے خطرہ ہے۔ پاکستان کی داخلی سلامتی کے درپے دوسرا خطرہ بھارت سے ہے۔ یوں ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کے پار پاکستان سے بغض و عناد اور دشمنی رکھنے والے ہمسایئے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ علاقائی ترقی کو شکار کر رہے ہیں اور پورا خطہ ایک مشکل میں پھنس کر رہ گیا ہے۔  بیجنگ اکیسویں صدی میں قدیم سلک روٹ (پاکستان کے راستے مشرق وسطی اور یورپ تک تجارتی راہداری) کو دوبارہ
 بحال و فعال دیکھنا چاہتا ہے۔ سی پیک آج چار براعظموں میں 100 سے زائد ممالک کی معاشی طاقت میں اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم پاکستان کے لئے ’سی پیک‘ کے ساتھ جڑی مشکل چین اور اس کے تجارتی بینکوں کے فراہم کردہ قرضوں کا جال ہے اور ایسی ہی صورتحال سری لنکا میں دیکھی گئی جہاں چین کی سرمایہ کاری سے جن شعبوں کی ترقی کا خواب دیکھا گیا وہ قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی تعبیر صورت ظاہر ہوا۔ قرض کم ہو یا زیادہ یہ کبھی بھی پائیدار معاشی ترقی کی ضمانت نہیں ہوتا اور نہ ہی معاشی استحکام کو قابل عمل بناتا ہے۔ پاکستان کا حاصل کردہ قرض توانائی کی ضروریات و سہولیات کے بنیادی ڈھانچے سے لیکر مواصلات کے شعبوں تک پھیلا ہوا ہے جس کا حجم اربوں ڈالر میں ہے جبکہ معاشی صورتحال یہ ہے کہ ڈالروں کی کمی کے باعث بھنور میں پھنسی ہوئی ہے اور تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے! پاکستان کا معاشی مسئلہ صرف قرض نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں کمی ہے۔ مالیاتی فیصلہ سازوں کو اُمید تھی کہ پاکستان ماضی کی طرح ترسیلات زر کرتے رہیں گے لیکن یہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ سی پیک کی مجبوریاں اُبھرتی ہوئی سپر پاور (چین) کے ساتھ پاکستان کی کاروباری لین دین کے روایتی طریقے (فارمیٹ) کو بھی تبدیل (متاثر) کر رہی ہے۔ چین کی کرنسی ’یوآن‘ اور ’پاکستانی روپے‘ میں 
 تجارت کے لئے دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اِس پر عمل درآمد اسٹریٹجک بین الاقوامی معاشی چیلنج ہے کیونکہ پاکستان اپنے معاشی مجبوریوں کے باوجود امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح پاکستان روس کے ساتھ ’روبل (روس کی مقامی کرنسی)‘ میں تجارت کرنے کے معاہدے پر غور کر رہا ہے اور اگر چین کے بعد روس کے ساتھ بھی مقامی کرنسی میں تجارت کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو اِس سے ایک ”نیا علاقائی مالیاتی نظام“ اُبھر کر سامنے آئے گا جس کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا اور اِسے کسی دوسری عالمی طاقت کی ضرورت نہیں رہے گی تاہم یہ تفہیم  تب ہی فائدہ مند ہے جب اس میں خطے کے دیگر ممالک بھی شریک ہوں۔ اِیران‘ بھارت اور اَفغانستان و ہ ممالک ہیں جن میں سے ایک تو چین کے مخالف بلاک میں ہے۔تاہم باقی دو بھی بھارت کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ چین اگر اس حوالے سے پالیسی مرتب کرے تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا ہی دانشمندی ہے اور یہ دانشمندی بالخصوص جغرافیائی معاشیات میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ بروقت (درست) وقت میں بروقت (درست) معاشی فیصلے کرنے کے لئے جغرافیائی سیاست کی نعمتوں کو مل بانٹ کر استعمال کرنا ضروری ہے۔ پاکستان چین کی دوستی پر انحصار کرتے ہوئے جس ’چائنا کارڈ‘ کا استعمال اکثر کرتا ہے اِسے اپنی خارجہ پالیسی کو کثیرالجہتی (مضبوط) بنانا ہوگا کیونکہ اِس طرح کا یک طرفہ کھیل زیادہ طویل عرصے تک نہیں چل سکے گا۔ پاکستان کے لئے چین اہم لیکن ایران‘ افغانستان اور بھارت تینوں ہمسایہ ممالک بھی یکساں اہم ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اِرشاد علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)