خوشگوار زندگی مگر نہیں 

پاکستانی اپنی زندگیاں کتنی خوشحالی اور اطمینان سے بسر کر رہے ہیں؟ اِس حوالے سے ملکی سطح پر کئے جانے والے ایک سے زائد مطالعات کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں نفسیاتی دباؤ (ڈپریشن) اضطراب اور تناؤ کی شرح حیرت انگیز طور پر زیادہ ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ لوگوں کو اِس قسم کے دباؤ کا سامنا کیوں کرنا پڑ ہے جبکہ معاشی مشکلات اور مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ بیروزگاری زیادہ ہے اور معاش کے کم مواقعوں پر بھی غیریقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کی معیشت ایسی ہے کہ اُنہیں زندہ رہنے کے ذرائع تلاش کرنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اور وہ مستقل طور پر معاشی مندی کے نشانے پر ہیں۔ معاشی مندی کے علاؤہ عوام دیگر طرح کے دباؤ کا بھی شکار ہیں تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موجودہ نئی نسل جسے ’جنریشن زیڈ‘ بھی کہا جاتا ہے اب تک کی سب سے زیادہ فکرمند اور تناؤ والی نسل ہے سوشل میڈیا اس فکرمندی میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کے نوجوانوں کی اکثریت کو اِس بات کا زیادہ غم ہے کہ اُن کے سوشل میڈیا پروفائلز کو کتنی پسندیدگی یا پذیرائی مل رہی ہے لیکن پاکستان میں بہت سے لوگوں کیلئے تناؤ کی سطح اس سے بھی زیادہ بلند ہے کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم کیلئے یونیورسٹی جانا چاہتے ہیں اور حسب آبادی جامعات میں نشستیں موجود نہیں ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے کام کاج اور تعلیمی زندگی کی دیگر ضروریات پورا کرنے کیلئے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن دیہی علاقوں کے رہنے والوں کیلئے تیزرفتار انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہے۔ اِن اور اِن جیسی دیگر بہت سی مشکلات کے باوجود ایسے پاکستانی موجود ہیں جنہوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان سے امریکہ اور دیگر ممالک میں جانیوالوں نے مختلف شعبوں میں اپنی بے مثال کارکردگی سے پاکستان کا نام روشن کر رکھا ہے۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ یہ اپنے لوگوں کی زندگیاں قدرے خوشگوار بنانے کے مواقع تلاش کرے۔ ملک میں بہت کم تفریح اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ بچے مایوس کن حالات میں سکول جاتے ہیں اور اپنے اساتذہ کے روئیوں اور ٹیوشن کے طویل گھنٹوں کی وجہ سے دباؤ میں واپس گھر آتے ہیں۔ آخر بچوں کو سکول کے بعد ٹیوشن کی ضرورت (حاجت) کیوں پیش آتی ہے اور اُنہیں سکول کی طرح باقاعدگی سے ٹیوشن کیوں لینا پڑتی ہے۔ ٹیوشن ایک ضرورت یا معمول کیوں ہے یہ بات واقعی سمجھنا مشکل ہے لیکن اِس سے بھی بڑھ کر صورتحال کا مایوس کن پہلو یہ ہے کہ ہمارے نوجوان کچھ بہتر‘ کچھ عمدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کوشش نے اُن کی زندگیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکل بنا رکھا ہے۔ یہ بات سرکاری اور نچلے درجے کے نجی سکولوں میں اور بھی زیادہ سچ دکھائی دیتی ہے جہاں ناقص تدریس کی وجہ سے طلبہ کیلئے میٹرک کے امتحانات‘ خاص طور پر انگریزی اور اسی طرح کے مضامین میں کامیاب (پاس) ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے‘ جسکی وجہ سے وہ بار بار ایک ہی نتائج کیساتھ امتحان دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتحال متقاضی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا نظام تبدیل کیا جائے۔ ایک ہی وقت میں‘ ہمیں بچوں اور نوجوانوں کیلئے تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے‘ اظہار رائے کی آزادی اور نوجوانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہئ خیال کی بھی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کیلئے تعلیم و تحقیق اور ترقی کے مواقعوں کی  تلاش کی جا سکے اور اُن کیلئے سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے لیکن تاحال ہونیوالے اقدامات کافی نہیں ہیں پاکستان میں نوجوانوں کیلئے زندگی کو قدرے زیادہ بامعنی بنانے اور انہیں درست سمت میں آگے بڑھنے کا احساس دلانے کیلئے ابھی بہت سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوانوں میں پائی جانیوالی مایوسی اور اُن کے مسائل حل کرنے کی ضرورت اِس لئے بھی ہے کہ اِنہی کے ہاتھ میں ملک کا مستقبل ہونا ہے لیکن اس بات کے کوئی ثبوت و شواہد دکھائی نہیں دے رہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو درپیش مسائل کے بارے میں فکرمند یا بے چین ہیں۔ ہر کسی کو اقتدار چاہئے اُور اِس بھاگ دوڑ میں قومی ضروریات اور ترقی کے تقاضے پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں۔ یہ حالات صرف اسی صورت میں بدل سکتے ہیں جب حکومتیں یہ تسلیم کریں کہ لوگوں کو بہتر معیار زندگی کی ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا میں سماجی ترقی کے سب سے کم اشارئیے رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ بھارت اور بہت سے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھی نہایت ہی کم توجہ نوجوانوں کو دے رہا ہے اور اگر یہ حالات برقرار رہے تو عوام کی زندگیوں میں اطمینان کی سطح بلند نہیں ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کاملہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)