بین الاقوامی اصطلاحات میں طاقت کو روایتی طور پر فوجی اور معاشی طاقت کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد کے دور میں خارجہ پالیسی کے مباحثوں میں ”سافٹ پاور“ کے تصور کو بہت اہمیت حاصل ہوئی اور امریکہ کو سافٹ پاور کا گڑھ سمجھا جانے لگا۔ چین نے اِس گروپ میں بہت بعد میں شمولیت اختیار کی اور عالمی سیاست میں اپنی سافٹ پاور امیج کو جوش و خروش سے فروغ دیا۔ جیسے جیسے امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ”چائنیز سافٹ پاور“ نامی مصنفہ ماریہ ریپنیکووا کے بقول ”واشنگٹن اور بیجنگ اپنے سیاسی اور معاشی نمونوں کو باقی دنیا کے لئے زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“ یہ اصطلاح پہلی مرتبہ امریکی پولیٹیکل سائنسدان جوزف نائی نے اپنی کتاب ’باؤنڈ ٹو لیڈ‘ میں استعمال کی تھی۔ انہوں نے نرم طاقت کے تین بنیادی ستونوں کا تعین کیا: سیاسی اقدار‘ ثقافت اور خارجہ پالیسی۔ سخت طاقت کے برعکس جو ملک کی فوجی اور معاشی طاقت سے پیدا ہونے والی طاقت کو مجبور کرنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ نرم طاقت کسی ملک کی وہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اقدار‘ ثقافت اور خارجہ پالیسی کے اہداف کو پرکشش بنا کر‘ طاقت یا جبر کے بغیر‘ اپنی ترجیحات کی تشکیل کرے اور اِسے ماننے کے لئے دوسروں کو راضی بھی کرے۔ سافٹ پاور کا امریکی تصور‘ نظریاتی طور پر‘ خود کو لبرل جمہوری نظام کے اہم محافظ کے طور پر فروغ دیتا ہے۔ اوبامہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے دوران مختلف سطحوں پر ان جذبات کی بازگشت سنائی دی۔ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی صدر جو بائیڈن کے افتتاحی خطاب میں اس نقطہئ نظر کا بیان کرتے ہوئے کہا ”ہم صرف اپنی طاقت کی مثال سے نہیں بلکہ اپنی مثال کی طاقت سے قیادت کریں گے۔“ دسمبر 2021ء میں بائیڈن نے آمرانہ طاقتوں کے خلاف جمہوری اتحاد قائم کرنے کے مقصد سے ورچوئل ’سمٹ فار ڈیموکریسی‘ کی میزبانی کی تھی۔ہالی ووڈ فلموں سے لے کر مائیکل جیکسن‘ گوگل سے لیکر ہارورڈ‘ کوکا کولا سے لے کر میک ڈونلڈز تک‘ نجی شعبے کی ثقافتی برآمدات سے امریکی سافٹ پاور تشکیل پاتی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں امریکی محکمہ خارجہ نے جاز موسیقی اور فنکاروں کو ثقافتی سفیر مقرر کیا اور اُن کے ذریعے امریکی ثقافت و حیثیت کو فروغ دیا۔ اِس حکمت عملی کا انحصار ”غیر معمولی وسائل: نظریہ‘ ثقافت اور بحث کے فریم ورک کا تعین کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت“ پر تھا۔ امریکی سافٹ پاور کا خیال جس نے امریکہ کو آہستہ آہستہ اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے قابل بنایا‘ بہت سے خطوں کے لئے مقبول اور پرکشش بن گیا۔ جس ملک نے اسے سب سے زیادہ جوش و خروش سے قبول کیا وہ چین ہے۔ چین نے حالیہ چند برس میں اپنے ثقافتی اعتماد پر زور دیا ہے‘ معاشی ترقی کو تقویت بخشی ہے اور دیگر ممالک کے دل جیتنے کے لئے فراخدلانہ وظائف فراہم کئے ہیں۔ چین نے اپنی ثقافتی اور تجارتی روایات یکجا کرنے کی کوشش میں نرم طاقت کے تصور کو الگ انداز میں عملی جامہ پہنایا۔ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے نام سے مشہور ثقافتی اور لسانی مراکز 162 ممالک میں قائم کئے گئے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے لئے تعلیم اور ریاستی سرپرستی میں تربیتی پروگراموں کے ذریعے سافٹ پاور کو تقویت دی گئی۔ چینی یونیورسٹیاں اپنی کم ٹیوشن فیس اور پرکشش تعلیمی وظائف کے ساتھ گلوبل ساؤتھ میں بہت سے طالب علموں کے لئے مقبول مقامات ہیں۔ چین کی سافٹ پاور اقتصادی ترقی‘ تکنیکی ترقی‘ غربت اور بدعنوانی کے خلاف سیاسی متحرک ہونا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے اقدامات وسطی ایشیائی‘ افریقی اور ایشیا و لاطینی امریکہ میں ریلوے‘ پلوں‘ شاہراہوں اور بندرگاہوں جیسے عظیم انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نظر آتی ہے۔ امریکہ میں‘ اس کی زوال پذیر جمہوری اقدار‘ انسانی حقوق کے لئے منتخب عزم اور وسیع پیمانے پر نسلی امتیازات اس کے نرم امیج کو نقصان پہنچا سکتی ہے نیز روس کے ساتھ محاذ آرائی میں عالمی جنوب کے زیادہ تر حصوں کو متحرک کرنے میں بھی امریکہ کی ناکامی اِس کے عدم اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔ کمیونزم اور مطلق العنانیت سے پہلے شکوک و شبہات کی وجہ سے امریکہ اور دیگر مغربی صنعتی جمہوریتوں میں چینی سافٹ پاور کا بہت کم اثر رہا تاہم چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ خارجہ پالیسی امریکہ کے ساتھ مخاصمانہ بیان بازی اور بحیرہئ جنوبی چین میں فوجی دھمکیوں کا استعمال کرتے ہوئے اِس کی ساکھ کو کمزور کر سکتی ہے۔ وبائی امراض کا تنہا مقابلہ اور سست معیشت کے تناظر میں‘ چین نے ڈرامائی طور پر لوگوں سے لوگوں کے تبادلے روک دیئے ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ چین نے دنیا میں اپنا سافٹ اِمیج برقرار رکھنے کے لئے جس انداز میں مالی عطیات دینے کا سلسلہ شروع کیا اگر اُسے ختم کیا جاتا ہے تو اِس سے چین کو کتنا نقصان ہوگا۔ مصنفہ ماریا ریپنیکووا کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ ایک دوسرے پر سافٹ پاور مسابقت حاصل کرنے میں مصروف ہیں لیکن ضرورت ’سافٹ پاور بقائے باہمی‘ کی ہے۔ امریکہ اور چین کی جملہ کامیابیوں کا انحصار ٹیکنالوجی کی ایجاد اور اِس کے استعمال پر ہے جبکہ دنیا کو کسی خاص امریکی یا چینی ماڈل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: بیلم رمضان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام