حکمرانی کے مختلف نظاموں کا انتخاب کرنے کا مطلب یہ تھا کہ بیجنگ اور واشنگٹن کوویڈ وبائی امراض سے نمٹنے کے لئے مختلف نقطہ نظر اپنائیں گے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کے وبائی مرض سے نمٹنے کے طریقہ کار میں اختلافات پر تبصرہ کیا ہے۔ چین ایک آمرانہ ریاست ہونے کے ناطے‘ سختی سے نافذ کردہ قوانین پر عمل پیرا رہا۔ امریکہ نے انفرادی طرز عمل کو زیادہ سے زیادہ جگہ دیتے ہوئے‘ لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ حکومت نے بنیادی طور پر اپنے کردار کو معلومات کی فراہمی اور مشورہ فراہم کرنے تک محدود رکھا اور ریاستوں کو اپنی پالیسیاں اپنانے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے مقابلے میں امریکہ میں کوویڈ سے زیادہ اموات ہوئیں۔ دی نیو یارک ٹائمز گیارہ دسمبر دوہزاربائیس کو اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جائزہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ”چین اور امریکہ کا خوف۔“ اِس تحقیق میں بیماریاں کنٹرول کرنے کے ماہرین کی آرأ کو شامل کیا گیا جبکہ اِس میں ناقدین کی رائے بھی شامل کی گئی۔ چین حکومت کی ترجمان ہوا چن ینگ نے نومبر دوہزاربائیس کے آخر میں اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا تھا کہ ”امریکہ میں جو شخصی آزادی دی گئی اُس کی قیمت 10 لاکھ اموات کی صورت ادا کرنا پڑی یقینا امریکی عوام اس سے کہیں بہتر چیز کے مستحق تھے۔“سال دوہزاربیس کے موسم خزاں میں سرکاری میڈیا نے ایک رپورٹ نمایاں طور پر شائع کی جس میں چینی تھنک ٹینکس نے امریکہ کو ”کووڈ کے خلاف جنگ میں دنیا کی نمبر ایک ناکام ملک قرار دیا اور جس میں کووڈ کے ساتھ کھیلنے اور لوگوں کو مرنے کی اجازت دینے کے امریکی اقدامات کا حوالہ دیا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹ میں سیاسی جوڑ توڑ کو بھی بیان کیا گیا جو امریکی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز
کرنے اور بڑی انسانی تباہی کا باعث بنا۔ صدر شی جن پنگ نے دوبارہ صدر بننے کے بعد کہا ”چین نے کورونا وبا کے خلاف لڑائی میں کلیدی اہداف و نتائج حاصل کئے ہیں‘ جو ملک کے سوشلسٹ نظام اور قیادت کی کامیابی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ہر انفیکشن کو ختم کرنے کی کوشش کرکے شہریوں کے تحفظ کے لئے ایک بہتر پالیسی اپنائی ہے اور کامیابی سے لاک ڈاؤن نافذ کئے ہیں جبکہ بیماروں کو اجتماعی قرنطینہ رکھا گیا اور سپر مارکیٹوں یا پارکوں جیسے عوامی مقامات تک رسائی کے لئے مستقل نیوکلیک یا پی سی آر ٹیسٹنگ کو لازم کیا گیا۔ چین کے سپریم لیڈر شی نے کورونا پابندیوں کے سخت نفاذ کی ضرورت پر بھی زور دیا لیکن صدر شی کو احساس ہوا کہ شاید انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ انہوں نے بیماری کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کیا ہے جیسا کہ واشنگٹن پوسٹ نے اداریہ میں لکھا کہ ان کے مؤقف کی اِس تبدیلی کی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین کی معیشت کو پہنچنے والا نقصان تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کورونا وبا پر قابو پانے کے لئے چینی حکومت کے سخت نقطہ نظر کے خلاف احتجاج بھی دیکھنے میں آیا جس کا جواب دیتے ہوئے صدر شی حکومت نے اپنا موقف تبدیل کردیا۔ سات دسمبر کو ہیلتھ حکام نے کووڈ کنٹرول میں نرمی کے لئے دس نکاتی منصوبہ شائع کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھنے والے کرسچن شیفرڈ اور وک چیانگ کے مطابق ”بہت کم لوگوں کو توقع تھی کہ چین حکومت مخالف سمت میں اتنی تیزی سے آگے بڑھے گی۔ دو سال سے زیادہ سخت اور ہر جگہ کوویڈ کنٹرول
کے بعد‘ بہت سے چینی باشندوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ عوامی بے چینی کا مقابلہ کرنے کے لئے‘ سرکاری پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے غیر مقبول لاک ڈاؤن کا جواز پیش کرنے کے لئے کورونا وائرس کے انفیکشن کی شدت کو اُجاگر کرنے کے مہینوں بعد‘ چینی محکمہئ صحت کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ کورونا وبا سے خوف یا خطرہ محسوس نہ کیا جائے۔ چین کے ایک اعشاریہ چار ارب افراد میں سے بہت سے لوگ کورونا وائرس کا شکار رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کو سیاٹل میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک عالمی تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ایویلیوایشن (آئی ایچ ایم ای) نے پیش گوئی کی تھی کہ اپریل2023تک چین میں کورونا وبا سے ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ چین میں 2023 میں دس لاکھ سے زیادہ اموات ہو سکتی ہیں جبکہ دوہزاربائیس میں اموات کی یہ تعداد 5235 رہی۔ حکومت کی جانب سے اپنی پالیسیوں میں نرمی سے قبل ہی کورونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام چین میں پھیل رہی تھیں۔ ہانگ کانگ میں محققین نے پیش گوئی کی کہ اگر چین بڑے پیمانے پر ویکسینیشن مہم اور دیگر اقدامات کے بغیر دوبارہ معمولات زندگی بحال کرتا ہے تو فی دس لاکھ افراد چھ سو چوراسی افراد ہلاک ہوجائیں گے۔ لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے ائرفینیٹی نے نومبر کے آخر میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر حکومت نے اچانک اپنی ’زیرو کووڈ‘ پالیسی ختم کردی تو چین میں تیرہ لاکھ سے اکیس لاکھ اموات ہوں گی۔ یہ چین کی دور اندیش قیادت تھی جس نے اس بڑے انسانی المیے کو ٹالا اور چین کو بحران سے بچایا‘ اس حوالے سے دیگر ممالک نے جو پالیسی اختیار کی اس میں فائدے کی بجائے نقصان کا پہلو غالب رہا جس کی مثال امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں دیکھنے کو ملی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔
تحریر: شاہد جاوید برکی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)